Back to Novel
Muhabbat Dil Ka Zehr Ya Suroor
Episodes
قسط 1: محبت دل کا زہر یا سرور 1 قسط 2: محبت دل کا زہر یا سرور 2 قسط 3: محبت دل کا زہر یا سرور 3 قسط 4: محبت دل کا زہر یا سرور 4 قسط 5: محبت دل کا زہر یا سرور 5 قسط 6: محبت دل کا زہر یا سرور 6 قسط 7: محبت دل کا زہر یا سرور 7 قسط 8: محبت دل کا زہر یا سرور 8 قسط 9: محبت دل کا زہر یا سرور 9 قسط 10: محبت دل کا زہر یا سرور 10 قسط 11: محبت دل کا زہر یا سرور 11 قسط 12: محبت دل کا زہر یا سرور 12 قسط 13: محبت دل کا زہر یا سرور 13 قسط 14: محبت دل کا زہر یا سرور 14 قسط 15: محبت دل کا زہر یا سرور 15 قسط 16: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 17: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 18: محبت دل کا زہر یا سرور 18 قسط 19: محبت دل کا زہر یا سرور 19 قسط 20: محبت دل کا زہر یا سرور 20 قسط 21: محبت دل کا زہر یا سرور 21 قسط 22: محبت دل کا زہر یا سرور 22 قسط 23: محبت دل کا زہر یا سرور 23 قسط 24: محبت دل کا زہر یا سرور 24 قسط 25: محبت دل کا زہر یا سرور 25 قسط 26: محبت دل کا زہر یا سرور 26 قسط 27: محبت دل کا زہر یا سرور 27 قسط 28: محبت دل کا زہر یا سرور 28 قسط 29: محبت دل کا زہر یا سرور 29 قسط 30: محبت دل کا زہر یا سرور 30

محبت دل کا زہر یا سرور 22

Episode 22

شبنم کو ماں یاد آ رہی تھی پھر اسے فکر تھی کہ وہ کب ڈاکٹر صاحب کی دعوت کر کے فارغ ہوتی ہے چند بار اس نے ڈاکٹر صاحب کی بیوی سے دعوت فون کر کے کہا تو اس نے کہا کہ کہ ابھی تو فلاں جگہ جانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی باری نہ آ رہی تھی۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کی ماں کو فون کیا تو پہلے انہوں نے حسب معمول بہو کی بہت سی براہیاں کیں پھر اس کے روٹھ کر جانے کا بتایا تو وہ پریشان ہو گئی۔ اسی وقت ان کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ سامنے سے خالہ جی آ رہی تھی انہوں نے پوچھا کہاں جا رہی ہو تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر جا رہی ہوں ان کی امی نے بلایا ہے ملنے کے لیے۔


شبنم ان کے پاس بیٹھی چاے پی رہی تھی تو وہ وجہ بتا رہی تھیں کہ میکے جا کر ہماری شکایتیں لگاتی ہے کہ ساس، سسر مجھے پسند نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کی نوکرانی بن کر رہوں وغیرہ وغیرہ۔


ڈاکٹر صاحب اچانک آے کافی رنجیدہ لگ رہے تھے اس پر نظر پڑتے ہی چہرہ کھل گیا۔ اس کا حال احوال پوچھا اور کمرے میں چلے گئے۔ شبنم پھر رکی نہیں اور واپس آ گئی۔


وہ کافی اداس تھی۔ اس نے ان کی صلح کی رب سے رو رو کر دعائیں شروع کر دیں ان کا گھر بسا دیکھنا چاہتی تھی آخر وہ اس کے محسن تھے۔


ڈاکٹر صاحب کی ماں کو بہو کے لباس اس کا گھر کو توجہ نہ دینا لیٹ اٹھنا کھانا نہ پکانا وغیرہ ان سب باتوں سے وہ سخت نالاں تھی۔ اس کو گئے چند ماہ ہو چکے تھے اور انہوں نے شوہر کے کہنے پر اسے فون کیا تھا تو اس نے رکھائ سے جواب دے کر آنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ڈاکٹر صاحب نے سختی سے منع کر دیا کہ وہ اب دوبارہ اسے فون نہیں کریں گی۔ اس کے باپ نے ایک بار ڈاکٹر صاحب کو فون کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس نے میری ماں سے بدتمیزی کی ہے میں اسے لینے نہیں آوں گا۔ اس کے بعد ان کی طرف سے رابطہ نہ ہوا۔


اب ڈاکٹر صاحب کی ماں شبنم سے شادی پر زور دینے لگی شوہر منع کرتا تو بیوی غصے سے کہتی اس کی حرکتیں دیکھی ہیں نہ وہ بسنا چاہ رہی ہے نہ اس میں گھر داری کا سلیقہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی رضامند ہوگئے اور شبنم کو اصرار کرنے لگے انہوں نے ماں کو کہا کہ وہ ابھی مان نہیں رہی مگر وہ اسے منا لیں گے۔


شبنم کو پہلے روز ڈاکٹر صاحب کی ماں کا فون آتا وہ اسے مناتی تو شبنم بڑے پیار سے سمجھا بجھا کر منع کر دیتی۔ ڈاکٹر صاحب کا اصرار بھی بڑھنے لگا مگر وہ نہ مانتی۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی نازونعم میں پلی تھی۔ وہ والدین کو صاف کہتی کہ وہ ادھر اب کھبی نہیں جاے گی اس کی ساس اسے بات بات پر ٹوکتی ہے اسے ناپسند کرتی ہے وہ شبنم کو بہو بنانا چاہتی تھی۔ والد نے پوچھا کہ وہ تو شبنم کو بہت اہمیت دیتے ہیں پھر شادی کیوں نہ کی۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گئی کہ باپ کو بتا دے پھر ڈاکٹر صاحب کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی کہ انہوں نے سختی سے کہا تھا کہ اگر یہ بات تم نے کسی کو بتائی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا تو وہ بس اتنا بتا سکی کہ وہ بیوہ تھی اس لیے۔


ڈاکٹر صاحب کے سسر مسکرا کر بولے بیوہ سے شادی کرنا آسان بات نہیں بڑے جگر کی بات ہے۔


ڈاکٹر صاحب کی بیوی شوہر کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی وہ اس سے پیار بھی کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب اسے منتیں کر کے لے کر جائیں اور شبنم سے زیادہ اسے اہمیت دیں۔ مگر وہ تو چند بار مختصر فون کر کے اسے جتا رہے تھے کہ جیسے گئی ہو ویسے خود آ جاو میں لینے کھبی نہیں آوں گا اور وہ اکڑ جاتی اور شبنم کو کوسنے لگتی تو وہ غصے سے فون بند کر دیتے۔


ڈاکٹر صاحب کے سسر بیٹی کو سمجھاتے کہ تم اپنا گھر دوسروں کے لیے خراب نہ کرو۔ ساس کو خوش رکھو تو شوہر بھی خوش ہو جائے گا۔ اس کی باتوں کو مان کر دیکھو اچھا لگے گا۔ اب وہی تمھارا گھر ہے۔ ماں غصے سے کہتی کیوں کیا ہم بیٹی کو پال نہیں سکتے کیا جو ساس کی غلامی کرنے بھیج دیں میری بیٹی ادھر ہی رہے گی اور میں اسے ان سے چھٹکارا دلاوں گی۔


بیٹی ماں کو کہتی میں طلاق بھی نہیں لوں گی اور جاوں گی بھی نہیں۔


باپ بیٹی کو سمجھاتا کہ شبنم بیوہ اور اکیلی ہے اگر وہ اس کی خبرگیری کرتا ہے تو کرنے دو۔ جو تمھارا مقام ہے وہ اس کا تو نہیں ہے نا تم اسے خوش رکھو وہ اس کے پاس نہیں جاے گا پھر اس کا بھی کوئی رشتہ ڈھونڈ کر شادی کرا دینا۔ اب اس کی ماں اسے شبنم سے شادی پر اصرار کر رہی ہے اور وہ مان بھی گیا ہے بس شبنم نہیں مان رہی۔ یہ نہ ہو کہ وہ تمہیں طلاق دیے بغیر ہی شادی کر لے پھر کیا کرو گی کہاں جاو گی۔


بیوی اکڑ کر غصے سے کہتی کرتا ہے تو کرے طلاق تو ہم خود لے کر رہیں گے۔ آخر کون سی بیوی شوہر کو کسی دوسری عورت سے ناطہ رکھنے دیتی ہے یا برداشت کرتی ہے۔


شوہر بیوی کو سمجھاتا تم بیٹی کو طلاق دلوا کر کیا کرو گی۔ وہ وثوق سے کہتی اس کی کسی سلجھے ہوئے اچھے شخص سے شادی کروا دوں گی یہ لوگ میری بیٹی کے قابل نہیں۔


شوہر نے کہا کہ ایک طلاق یافتہ سے کون اچھا شادی کرے گا۔ بیٹی والدین کی بحث و تکرار سے پریشان ہوتی اور کوئی فیصلہ نہ کر پاتی کہ باپ اصرار کرتا کہ وہ تمھارا اپنا گھر ہے تم خود چلی جاو شکر کرو وہ تمھیں آنے دے رہا ہے جبکہ ماں نہ جانے دیتی۔


ڈاکٹر صاحب ماں کے بےحد اصرار اور بیوی کی بےرخی سے تنگ آ کر مسلسل شبنم کو شادی پر منانے لگے۔ شبنم کہتی میں کسی کا گھر خراب کر کے اس پر سوکن بن کر نہیں جا سکتی میرا مقصد والدین کو تلاش کرنا ہے۔


ڈاکٹر صاحب کی ماں روز شبنم کو فون کر کے اسے منانے کی کوشش کرتی۔


شبنم نے ڈاکٹر صاحب کی بیوی سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اسے میسج کیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی کوئی ضروی بات کرنے اس سے ملنا چاہتی ہے۔ میسج کا جواب نہ آیا تو وہ ان کے گھر آٹو کر کے چل پڑی ڈاکٹر صاحب کی ڈھولکی پر ان کے گھر جا چکی تھی۔


وہ وہاں پہنچی تو ڈاکٹر صاحب کے سسر اس سے اخلاق سے ملے حال احوال پوچھا اور عزت سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ملازم کو جوس لانے کا کہا وہ لے آیا اسے پیش کیا اور کہا بیٹا آپ انتظار کریں میں بیٹی کو بھیجتا ہوں۔


جاری ہے۔


شبنم آہستہ آہستہ جوس پیتی اس کا انتظار کر رہی تھی۔


ڈاکٹر صاحب کے سسر بیٹی کے پاس گئے اور اسے سمجھانے لگے کہ اس سے اخلاق سے پیش آنا اس سے بدتمیزی نہ کرنا ورنہ ڈاکٹر صاحب ناراض ہوں گے تو بیوی تڑخ کر بولی میرا خیال ہے کہ اسے سبق سکھایا جاے۔


شوہر نے بیوی کو سختی سے کہا کہ تم نے اندر نہیں جانا اور بیٹی سے کہا کہ اگر تم واقعی اپنے شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو اور اسے شبنم سے شادی ہوتے دیکھنا چاہتی ہو تو جو مرضی کرو۔ اگر اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو اس کے ساتھ تمیز سے پیش آنا یہ نہ ہو ڈاکٹر صاحب اس سے بدتمیزی پر غصے سے طلاق بھجوا دیں۔ ویسے بھی وہ اب ماں کے اصرار پر اس سے شادی پر راضی ہیں۔ مجھے ان کا ملازم خبریں دیتا ہے۔ اب تم نے فیصلہ کرنا ہے اسے شبنم کو سونپنا ہے اور خود اس کو ہمیشہ کے لیے دور کرنا ہے تو جاو جو جی میں آئے کرو میں تم ماں بیٹی کے غلط فیصلوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی بیوی کچھ سوچتے ہوئے ڈراہنگ روم میں چل پڑی۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ


ناول نگار عابدہ زی شیریں۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.