محبت دل کا زہر یا سرور 4
Episode 4
فواد اور شبنم ڈاکٹر صاحب کے زور دینے پر سادگی سے چند آس پڑوس کی موجودگی میں نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔ امر سارا وقت منہ پھلاے رہا ۔ کھانا بھی ٹھیک سے نہ کھایا۔
فواد شبنم کو پا کر بہت خوش تھا اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی تھی کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی ہو مگر والدین نے اپنے ہی خاندان کی انپڑھ لڑکی سے اس کی شادی کر دی۔ وہ گاوں میں رہتا تھا اور ایف اے پاس تھا کہ گاوں کے اسکول میں صرف اتنی ہی کلاسیں تھیں۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا مگر والدین اس کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے باپ نے رہنے کے لئے بڑی سی حویلی بنوائی تھی پیسے کی کمی نہ تھی۔ شادی کے سال بعد امر پیدا ہوا تو خوب خوشی منائی گئی۔ مگر اس کے بعد کوئی اور بچہ نہ ہو سکا۔ امر دادا، دادی کی آنکھ کا تارا تھا۔ فواد کے ابو کے کزن قریب ہی رہتے تھے اور بہت آنا جانا لگا رہتا تھا۔ فواد کی ماں اور بیوی یکے بعد دیگرے فوت ہو گئی تو ان لوگوں نے فواد کو اور اس کے ابو کو کھانا دینے لگے۔ فواد بارہ سال کا تھا فواد کے کزن جس کے دو بیٹے تھے انہیں اپنے گھر میں شفٹ کروا لیا۔ فواد کے ابو نے کہا کہ اتنا بڑا گھر موجود ہے ان کا گھر کچا ہے۔بہتر ہے یہ لوگ بھی اپنے ہیں ادھر ہی حویلی میں انہیں شفٹ کر لیا جائے تو ان کو بھی فائدہ اور ہمارا بھی فاہدہ۔ یہ لوگ ساتھ دے رہے ہیں کھانا پکا کر کھلاتے ہیں یتیم ہیں ان کی بھی مالی امداد ہو جائے گی۔
فواد چونکہ زمینداری میں دلچسپی نہیں لیتا تھا تو فواد کے باپ نے سارا نظام قیوم کو سونپ دیا جو فواد کے باپ کی خوشامد میں لگا رہتا تھا۔ اس نے اس کے تمام معاملات سنبھال لیے تھے۔ فواد شہر جا کر بزنس کرنا چاہتا تھا اور شہر شفٹ ہو کر بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا مگر باپ کی بیماری کی وجہ سے وہ وہیں رک گیا باپ شہر کے ہاسپٹل نہیں جانا چاہتا تھا وہ کہتا تھا کہ میں گاوں میں ہی مرنا چاہتا ہوں۔
فواد ہنوز زمینداری کے معاملات سے لاپرواہی برت رہا تھا تو باپ نے دیکھا کہ قیوم اس کی جاہیداد ہڑپ کرنا چاہتا ہے تو اس نے وکیل کو بلا کر ساری جاہیداد کچھ بیٹے کے اور کچھ پوتے کے نام منتقل کر دی کچھ کا سودا کر کے رقم بینک میں فکس کروا دی۔
قیوم چونکہ انپڑھ تھا اس کو کچھ علم نہ ہو سکا۔ فواد کا باپ قیوم کی نیت جان چکا تھا اس نے بیٹے کو بلایا مگر ساتھ ہی قیوم بھی بیٹھ گیا تو وہ فقط اتنا ہی کہہ سکا کہ بیٹا مجھے لگتا ہے میں اب زیادہ نہ جی سکوں گا تم شہر میں شفٹ ہو کر پوتے کو اعلیٰ تعلیم دلوانا اور کسی اچھی شہر کی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کر لینا۔
فواد تڑپ کر بولا بابا جان آپ کا سایہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ میرے سر پر قائم رکھے آپ کے سوا میرا ہے ہی کون۔ قیوم قریب بیٹھا ہوا تھا اسے تھپکی دیتے ہوئے بولا ارے میرے بھائی ہم ہیں نا تیرے اپنے تیرا ساتھ قیامت تک نہ چھوڑیں گے۔ فواد شرمندگی سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پیار سے بولا بلکل آپ کو میں اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتا ہوں۔
قیوم فواد کو موقع نہ دیتا کہ وہ باپ سے تنہائی میں مل سکے۔
فواد کا باپ اب قیوم کو حویلی لا کر پچھتا رہا تھا۔ فواد کی اس نے چھوٹی عمر میں ہی شادی کر دی تھی اور وہ ہے بھی معصوم تھا قیوم کی بڑھتی ہوئی مکاریوں سے وہ پریشان تھا پریشانی سے بیمار پڑ گیا اور بوڑھا بھی تھا کچھ لوگوں سے اس نے مدد طلب کرنا چاہی مگر کچھ تو قیوم سے ڈرتے تھے اور کچھ بک چکے تھے اس لیے کسی نے مدد نہ کی۔ کیونکہ پورے علاقے میں قیوم کی دہشت کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اس نے ملازموں کو بھی ساتھ ملا لیا تھا صرف دینو وفادار تھا مگر غریب اور مجبور تھا۔ کچھ کر نہیں سکتا تھا اس نے فواد کے باپ سے وعدہ کیا کہ وہ ہر ممکن مدد کرے گا مگر وہ قیوم کی وفاداری کا بھی دم بھرتا تھا تاکہ اسے شبہ نہ ہو۔ مگر اسے جلد موقع نہ مل سکا۔ فواد کے باپ کی وفات ہو گئ۔
قیوم اپنی فتح پر خوش تھا کہ بوڑھا جو اس کی نیت سے واقف ہو چکا تھا وہ مروا دیا گیا اب فواد کو اور اس کے بیٹے کو راستے سے ہٹا کر جاہیداد ہڑپ کرنی تھی۔ اس کام کے لیے اس نے علاقے کے ڈاکٹر صاحب کو بہانے سے گھر پر بلایا اور فواد کو مارنے کا پلان بتایا ساتھ میں اچھی آفر بھی پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب سن کر سن ہو گئے انہوں نے سوچا اگر میں نے یہ کام نہ کیا تو یہ کسی اور سے کروا کر اسے مروا دیں گے اس علاقے کی پولیس بھی ان کی مٹھی میں ہے بہتر ہے ان کی بات مان لی جائے اور اس کو بچانے کی کوئی ایسی سبیل نکالی جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
دین ایک وفادار ملازم تھا اس کے بزرگ بھی ان کے ملزم رہ چکے تھے اس لئے سب ملازموں میں اسے فوقیت دی جاتی تھی۔
قیوم تیز انسان تھا اس لیے وہ زیادہ اسے فواد کے قریب نہ جانے دیتا تھا جب فواد فرار ہوا تو قیوم کو ایسا لگا کہ جیسے فواد کو اس پر شک ہو گیا تھا اس لیے اس نے ڈاکٹر صاحب کی دوائی بھی نہ کھائ اور موقع پا کر بہانے سے پہلے بیٹے کو فرار کیا اور اب خود ہو گیا۔ اسے ڈاکٹر پر شک نہ گزرا۔ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں بھی اس سے ملنا جلنا جاری رکھا اور فواد کے بارے میں معلوم کرتے رہتے اور کہتے جوں ہی اس کی کوئی اطلاع ملی سب سے پہلے مجھے بتانا اب وہ مجھ سے بچ کر نہیں جا سکے گا اور تمھارا کام بھی آسان ہو جائے گا۔ تو قیوم اس پر اعتبار کرنے لگا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے رقم بھی واپس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں شرمندہ ہوں کہ کام پورا نہ کر سکا جب بھی یہ کام کروانا ہوا مجھ سے ہی کروانا اس وقت میں ڈیل کے مطابق معاوضہ وصول کروں گا۔ اس بات سے قیوم بہت خوش ہو گیا کہ رقم ڈوبنے سے بچ گئی۔
جاری ہے۔ دعاگو عابدہ زی شیریں
پلیز اسے لاہک شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔
جزاک اللہ
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.