Back to Novel
Muhabbat Dil Ka Zehr Ya Suroor
Episodes
قسط 1: محبت دل کا زہر یا سرور 1 قسط 2: محبت دل کا زہر یا سرور 2 قسط 3: محبت دل کا زہر یا سرور 3 قسط 4: محبت دل کا زہر یا سرور 4 قسط 5: محبت دل کا زہر یا سرور 5 قسط 6: محبت دل کا زہر یا سرور 6 قسط 7: محبت دل کا زہر یا سرور 7 قسط 8: محبت دل کا زہر یا سرور 8 قسط 9: محبت دل کا زہر یا سرور 9 قسط 10: محبت دل کا زہر یا سرور 10 قسط 11: محبت دل کا زہر یا سرور 11 قسط 12: محبت دل کا زہر یا سرور 12 قسط 13: محبت دل کا زہر یا سرور 13 قسط 14: محبت دل کا زہر یا سرور 14 قسط 15: محبت دل کا زہر یا سرور 15 قسط 16: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 17: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 18: محبت دل کا زہر یا سرور 18 قسط 19: محبت دل کا زہر یا سرور 19 قسط 20: محبت دل کا زہر یا سرور 20 قسط 21: محبت دل کا زہر یا سرور 21 قسط 22: محبت دل کا زہر یا سرور 22 قسط 23: محبت دل کا زہر یا سرور 23 قسط 24: محبت دل کا زہر یا سرور 24 قسط 25: محبت دل کا زہر یا سرور 25 قسط 26: محبت دل کا زہر یا سرور 26 قسط 27: محبت دل کا زہر یا سرور 27 قسط 28: محبت دل کا زہر یا سرور 28 قسط 29: محبت دل کا زہر یا سرور 29 قسط 30: محبت دل کا زہر یا سرور 30

محبت دل کا زہر یا سرور 8

Episode 8

شبنم نے ہاتھ زخمی کر کے خوب رو لیا۔ وہ جاگی تو امر کی آواز آ رہی تھی وہ اس کے آنے کا انتظار کرتی رہتی۔ مگر اس نے ایک بار بھی نہ پوچھا کہ کیا ہوا اور طبیعت کیسی ہے۔ وہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود اس کے لیے کھانا بناتی تھی۔ مگر آج اس کا بیڈ سے اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ اوپر سے امر کی دل دکھانے والی باتیں۔ وہ تو اس کی شادی کے خواب دیکھا کرتی تھی اس کے بچوں کو گود میں کھلاے گی۔ اس نے رب تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہے میرے بیٹے کو میرا بنا دے اس کے دل میں میرے لئے ماں والا جزبہ جگا دے اور اس کے بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملنے کی کوئی سبیل نکال دے۔ وہ ان سے ملنے کے لیے تڑپ رہی تھی اڑ کر ان کے پاس جانا چاہتی تھی مگر فواد تو اسے بیڈ سے پاوں نیچے نہیں اتارنے دے رہا تھا۔ اس نے تو وہ جگہ بھی یاد کر لی تھی جدھر اس کا گھر تھا وہ علاقہ بھی یاد کر لیا تھا۔ اب وہ مجبور تھی ایک بار دل چاہتا فواد کو سب سچ بتا کر معافی مانگ لے مگر دوسری طرف اسے ڈر لگتا کہ اس نے کہا تھا کہ وہ جھوٹ کھبی برداشت نہیں کر سکتا نہ ہی ایسے شخص کو معاف کر سکتا ہے۔ اب وہ مجبور تھی پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اس نے سوچا کہ وہ ہمت کرے اور نارمل ہونے کی کوشش کرے تو فواد اسے اکیلے گھر سے نکلنے دے گا تو وہ وہاں جا سکے گی۔


فواد امر کے ساتھ اس کے رشتے کے لئے جاتے ہوئے کافی معزرت کر رہا تھا اور وہ اسے تسلیاں دے رہی تھی۔ وہ اسے اس حالت میں اکیلے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا تو اس نے اٹھ کر کچن میں داہیں ہاتھ سے چاے بنائی فواد نے پیار سے ڈانٹا تو شبنم بولی ارے جناب الٹا ہاتھ زخمی ہے۔ سیدھا تو ٹھیک ہے ناں۔ آپ فکر نہ کریں مجھے اٹھنے دیں کام کاج کرنے دیں ورنہ میں اپنے آپ کو مریض سمجھنے لگوں گی شکر خدا کا کہ اس نے مجھے تندرست رکھا ہے اور ہاتھ کی چوٹ تو معمولی سی ہے احتیاط کروں گی اور جلد ٹھیک ہو جاوں گی انشاءاللہ۔ میں لیٹے لیٹے بور ہو چکی ہوں۔ آپ لوگ آرام سے جاہیں میں ابھی لیب ٹاپ پر کوئی مووی لگا کر دیکھتی ہوں۔


فواد قدرے مطمئن ہو گیا اور دونوں چل پڑے۔


شبنم کی جی بھر کر رونے سے دل کی بھڑاس کافی حد تک نکل چکی تھی۔ وہ خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اسے وہ گھر علاقہ مل گیا تھا جس کو وہ کب سے تلاش کر رہی تھی وہ چاے کا کپ لے کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور چاے پیتے ہوئے ماضی میں کھو گئی۔


شبنم تین بہن بھائی تھے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ شبنم سے ایک بھائی بڑا اور ایک چھوٹا تھا۔ وہ محلے میں کافی عرصے سے رہ رہے تھے۔ پڑوسی ان کو سب جانتے تھے۔ شبنم گھر کے قریبی دوکانوں سے سودا سلف وغیرہ لاتی رہتی تھی۔ اسے پڑھنے کا بہت زیادہ شوق تھا وہ اپنا ہوم ورک بہت شوق سے کرتی۔ ہمیشہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتی۔


کھانا کھانے لگے تو بڑے بھائی نے دہی کی فرمائش کر دی تو ماں نے شبنم کو پیسے دے کر دوڑایا کہ جا دوکان سے بھاگ کر دہی لے آ۔ اس کا بڑا بھائی دہی کا کہہ کر واش روم چلا گیا چھوٹا ابھی بہت چھوٹا تھا۔ شبنم پیسے پکڑ کر تیزی سے گھر سے نکل گئی۔ دن کے وقت گلی میں خاموشی تھی۔ وہ اپنی دھن میں جا رہی تھی کہ اس کا ایک پڑوسی بشارت جسے سب باشو کے نام سے پکارتے تھے اس کے ماتھے پر زجم کا گہرا نشان تھا اس نے اسے دیکھا اور رک کر پوچھا بیٹی کہاں جا رہی ہو وہ میں نے تمہیں بتانا تھا کہ کوئی انکل تم لوگوں کا پوچھ رہے ہیں کافی کھلونے کپڑے بھی اٹھائے ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں باہر ملک سے آیا ہوں سب کے لیے تحفے بھی لایا ہوں میرے گھر بیٹھے ہوئے ہیں تمھارے ابو کا پوچھ رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ شبنم مجھے جانتی ہے اور گھر کا ایڈریس بھول گئے ہیں تم زرا ساتھ آو ان کو پہچانو وہ بڑی سی گڑیا بھی لاے ہیں۔ وہ ڈر کر بولی نہیں میں ابو کو بتاتی ہوں جا کر۔ ویسے بھی وہ اس کی سبز آنکھوں اور ماتھے پر گہرے نشان کی وجہ سے ڈرتی تھی


باشو بولا بیٹا بس دروازے کے باہر سے دور سے دیکھ کر بتانا۔ وہ اسے مجبور کر کے پاس ہی گھر تھا دروازے تک ہاتھ پکڑ کر زبردستی لے آیا وہ ہاتھ چھڑا بھی نہ سکی کیونکہ گلی میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ دروازے کے قریب پینچ کر شبنم نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ انکل میں نے جانا ہے چھوڑیں مگر اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر جلدی سے اسے گھر کے اندر کر کے کنڈی لگا دی۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ جزاک اللہ۔


راہیٹر عابدہ زی شیریں



Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.