Back to Novel
Muhabbat Dil Ka Zehr Ya Suroor
Episodes
قسط 1: محبت دل کا زہر یا سرور 1 قسط 2: محبت دل کا زہر یا سرور 2 قسط 3: محبت دل کا زہر یا سرور 3 قسط 4: محبت دل کا زہر یا سرور 4 قسط 5: محبت دل کا زہر یا سرور 5 قسط 6: محبت دل کا زہر یا سرور 6 قسط 7: محبت دل کا زہر یا سرور 7 قسط 8: محبت دل کا زہر یا سرور 8 قسط 9: محبت دل کا زہر یا سرور 9 قسط 10: محبت دل کا زہر یا سرور 10 قسط 11: محبت دل کا زہر یا سرور 11 قسط 12: محبت دل کا زہر یا سرور 12 قسط 13: محبت دل کا زہر یا سرور 13 قسط 14: محبت دل کا زہر یا سرور 14 قسط 15: محبت دل کا زہر یا سرور 15 قسط 16: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 17: محبت دل کا زہر یا سرور 16 قسط 18: محبت دل کا زہر یا سرور 18 قسط 19: محبت دل کا زہر یا سرور 19 قسط 20: محبت دل کا زہر یا سرور 20 قسط 21: محبت دل کا زہر یا سرور 21 قسط 22: محبت دل کا زہر یا سرور 22 قسط 23: محبت دل کا زہر یا سرور 23 قسط 24: محبت دل کا زہر یا سرور 24 قسط 25: محبت دل کا زہر یا سرور 25 قسط 26: محبت دل کا زہر یا سرور 26 قسط 27: محبت دل کا زہر یا سرور 27 قسط 28: محبت دل کا زہر یا سرور 28 قسط 29: محبت دل کا زہر یا سرور 29 قسط 30: محبت دل کا زہر یا سرور 30

محبت دل کا زہر یا سرور 14

Episode 14

شبنم کو ڈاکٹر صاحب کا میسج آیا کہ اب جب وہ ہاسپٹل آے تو گھر کی چابی لے لینا اور اس ایڈرس پر موقع پا کر چلی جانا۔


شبنم بہت خوش ہوئی اور اب ہاسپٹل جانے کا بہانہ سوچنے لگی۔ مگر بہانہ نہ ملا چند دن بعد شبنم نے ڈاکٹر صاحب کو میسج کر دیا کہ وہ پیٹ درد کا بہانہ کرے گی آپ اسے بڑھا چڑھا کر بتانا اور مجھے ایڈمٹ کر لینا۔


دوسرے دن وہ دروازے کے باہر گر کر ہاے ہاے کرنے لگی۔ پاس سے گزرتی لڑکی نے جا کر ملکہ بی کو بتایا وہ دوڑی چلی آئی اور اسے پوچھنے لگی کہ کیا ہوا تو اس نے نقاہت سے کہا کہ پیٹ میں شدید درد ہے۔


ملکہ بی نے فوراً ساتھی کو بلایا اور اسے ہاسپٹل لے گئے۔ ہاسپٹل میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس کے ایکسرے اور ٹیسٹ وغیرہ کرنے پڑیں گے اور اسے ایڈمٹ کرنا پڑے گا۔ ملکہ بی چپ ہو گئی۔


شبنم کو لٹا کر ڈرپ لگا دی گئی۔ ملکہ بی نے کہا کہ وہ رات کو کسی کو بھیج دے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ صرف ایک کسی کو رہنے کی اجازت ہو گی۔


ملکہ بی بولی فکر نہ کریں ایک ہی ہو گی باقی باہر ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق وہ وقفے وقفے سے کراہنے کی ایکٹنگ کرتی رہی۔ پاس بیٹھی لڑکی اسے دیکھتی رہتی۔ ملکہ بی واپس چلی گئی مگر اندر ایک لڑکی اور باہر اپنے ساتھی کو چھوڑ گئی۔


ساری رات لڑکی پہرہ دیتی رہی۔ صبح ہی ملکہ بی نے دوسری لڑکی بھیج دی۔ شبنم کو موقع نہ مل رہا تھا ڈاکٹر صاحب نے آ کر تسلی دی فکر نہ کریں جلدی آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔ وہ کراہنے لگی۔


ملکہ بی نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ہم بہت مصروف لوگ ہیں مہربانی فرما کر اسے جلدی سے ٹھیک کر دیں تاکہ اسے لے کر جا سکیں۔


ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کیا آپ چاہتی ہیں کہ اس سے دوسروں کو بھی بیماری لگے۔ اگر اس سے دوسروں کو بچانا چاہتی ہیں تو ان کو اس سے دور رکھیں۔ ویسے بھی اس کی رپورٹ دیکھ کر میں پریشان ہوں کہ آپ کو کیسے بتاؤں نہ بتاے بغیر بھی چارہ نہیں کہ اس کی لاسٹ اسٹیج ہے یہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے پھر بھی میں ڈاکٹر ہونے کے ناطے اس کی زندگی کو مزید چند روز بچانے کی کوشش کروں گا۔


ملکہ بی کا رنگ فق ہو گیا ڈاکٹر صاحب نے پھر اسے تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں بس خدا سے دعا کریں۔ ملکہ بی تیزی سے باہر ساتھی کے پاس گئی اور اسے ساری بات بتائی۔ وہ بھی پریشان ہو گیا اور مشورہ دینے لگا کہ ایک لڑکی تو مر رہی ہے اور دوسری کو چھوت سے بچا لو۔ ملکہ بی نے دوسری لڑکی کو واپس بھجوا دیا۔


ڈاکٹر صاحب نے ملکہ بی کو پھر تسلی دی کہ اس کا ہم بہترین علاج کریں گے شاید کچھ دن اور جی سکے۔ آپ اس کے ٹیسٹ وغیرہ کی پچھلی پےمنٹ کر دیں تاکہ اس کے مزید اور ٹیسٹ کر سکیں۔


ملکہ بی نے کہا کہ اچھا وہ ابھی آئی۔


ملکہ بی باہر گئی اپنے ساتھی کو بتایا تو وہ بولا کہ اب اس پر پیسے خرچ نہ کرو اور ڈاکٹر صاحب کو بہانہ کر دو کہ اکھٹی پےمنٹ کر دیں گے۔


ملکہ بی نے ڈاکٹر صاحب کو ایسے ہی کہا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ملکہ بی شبنم کے پاس آئی تو شبنم نے زور سے کرانے لگی۔ اچانک ملکہ بی کو یاد آیا کہ اس سے دور رہنا ہے تو وہ چل پڑی۔


اس کے جاتے ہی ڈاکٹر صاحب نے شبنم کو اشارہ کیا اور وہ سانس روکے آنکھیں کھلی مرنے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔ ڈاکٹر صاحب نے نبض چیک کی اور ہاتھ سے اس کی آنکھیں بند کیں پھر نرس سے کہا کہ ایمبولینس اور اسٹریچر کا بندوبست کرو اسے اسٹریچر میں ڈال کر ایمبولینس میں ڈالا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ اسے خود لے کر جاہیں گے گھر والوں کی ڈیمانڈ ہے۔ اگے جا کر ڈاکٹر صاحب نے گاڑی ایک دوسری جگہ کھڑی کی وہ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی آٹو روکا گاڑی کو لاک کیا اور دونوں اس نیے گھر چل پڑے وہاں شبنم کو چھوڑ کر اس کو تسلی دے کر اندر سے لاک بند کرنے اور بغیر پوچھے لاک نہ کھولنے کی ہدایت کر کے چل پڑے۔


شبنم کو جب خیال آیا کہ وہ ادھر سے کسی بھی وقت فرار ہو سکتی تھی تو اس نے تکیے میں اپنی تمام رقم اور اپنی تعلیمی اسناد سب تکیے میں ڈال دی تھیں۔ جب پیٹ درد کا بہانہ بنا تکیے کو دوپٹے سے پیٹ پر باندھ دیا ایک لڑکی نے تکیہ ہٹانا چاہا تو شبنم کراہتے ہوئے بولی اس سے تسلی مل رہی ہے تو ملکہ بی نے ہٹانے سے منع کر دیا۔ ہاسپٹل جا کر بھی ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھا نرس نے تکیہ ہٹانا چاہا تو ڈاکٹر صاحب نے نرس کو منع کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں جیسے مریض کو تسلی ملے۔ جب ڈرپ لگی تو شبنم نے تکیے کو سر کے نیچے رکھ دیا۔


شبنم گھوم پھر کر گھر کو دیکھنے لگی اکیلی اندر سے ڈر بھی رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ضرورت کا ہر سامان ڈال دیا تھا اسے بھوک بھی لگ رہی تھی اس نے جا کر فرج کھولا تو اس میں کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں وہ اللہُ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگی۔ وہ باتھ روم میں جا کر وضو کرنے لگی کہ زور زور سے دروازہ بجنے لگا اس کا دل خوف سے دھڑکنے لگا۔ وہ دروازے کے قریب جاکر کانپتی آواز سے پوچھنے لگی کہ کون مگر جواب نہ ملا اور کوئی مسلسل کھٹکھٹاتا رہا۔


جاری ہے۔


ازقلم عابدہ زی شیریں۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.