محبت دل کا زہر یا سرور 6
Episode 6
امر کی نفرت دن بدن شبنم سے کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جاتی تھی وہ اس سے رکھائ سے پیش آتا۔ جبکہ فواد اسے بہت عزت سے آپ جناب کہہ کر مخاطب کرتا۔ وہ اپنے بیٹے کے رویے سے شرمندہ ہو کر اس سے اکثر معزرت کرتا رہتا تو جواب میں شبنم اسے کہتی صبر کریں اور حوصلہ رکھیں اللہُ تعالیٰ سے اچھی امید رکھیں اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ فواد اس کے ضرف پر حیران ہوتا۔ اس نے زندگی کا ہر سکھ اسے دیا تھا دن رات وہ ان باپ بیٹے کی خدمتوں میں لگی رہتی اور بزنس کو بھی دیکھتی۔ کھبی وہ بہت تھکی ہوئی ہوتی تو فواد باہر سے کھانا آرڈر کرنا چاہتا تو امر صاف کہہ دیتا کہ اسے گھر کا کھانا چاہیے۔ باپ کھبی سرزنش کرنا چاہتا تو وہ سختی سے منع کر دیتی۔ وہ کہتی ہمارا ایک ہی تو بیٹا ہے اور اس کے علاوہ ہمارا ہے کون ہم اس کے ناز نہ اٹھائیں گے تو کس کے اٹھائیں گے۔
فواد شرمندگی سے صفائی پیش کرتا کہ میری بیوی انپڑھ ہونے کے ساتھ بےوقوف بھی تھی۔ میری شدید خواہش تھی کہ میری شریک حیات پڑھی لکھی ہو جو زندگی کے ہر معاملے میں میرا ساتھ دے۔ مگر افسوس جب میری بیوی کے والدین فوت ہو گئے تو والدین نے اس سے میری چھوٹی عمر میں ہی شادی کر دی۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا مگر والد صاحب نے کہا کہ اب تعلیم حاصل کرنے کی بجائے کچھ زمہ داری کی طرف دھیان دو تم اب بیوی بچے والے ہو۔ وہ مجھے زمینوں کی طرف لگانا چاہتے تھے جبکہ میں غصے اور غم میں تعلیم کو ادھورا رہ جانے کی وجہ سے لاتعلق بنا رہتا انہوں نے بھی کہا کہ بےشک تم ادھر دھیان نہ دو مگر ہم تمہیں آگے پڑھنے یا شہر میں نوکری کی اجازت نہیں دیں گے تم ہماری اکلوتی اولاد ہو۔ ہم تمھاری جلدی شادی کر کے تمھاری اولاد کی خوشی دیکھنا چاہتے تھے شکر ہے کہ پوتے نے دل کی آرزو پوری کر دی۔ اس کے بعد میری کوئی اور اولاد نہ ہو سکی۔ میری ماں میری بیوی کو دم درود اور پیروں فقیروں کے چکر بھی لگواتی رہی مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔
سب کے لاڈ پیار سے امر ضدی اور خودسر ہونے لگا۔ بیوی اور ماں کی وفات کے بعد مجھے بیٹے کی طرف ہوش آیا اور میں اسے سدھارنے کی کوشش کرنے لگا اور اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے پلان بنانے لگا تو سب سے پہلے میں نے تمام زمینوں کا حساب کتاب رکھا اور باپ کو بڑی مشکل سے کافی جاہیداد بیچنے پر راضی کیا اور رقم محفوظ کرنے کے لیے بینک میں ڈال دی۔ باپ نے وعدہ لیا کہ تم یہ کام خفیہ طور پر کرو گے کیونکہ گاوں میں باپ دادا کی زمین کو بیچنا بہن بیٹی بیچنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور بہت برا خیال کیا جاتا ہے۔ فواد نے باپ سے کہا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے اب لوگ گاوں کی جاہیداد بیچ کر شہر منتقل ہو رہے ہیں مگر وہ پرانے خیالات رکھتے تھے اس لیے یہ شرط لگائی بعد میں میرے اس فیصلے سے متفق بھی ہو گئے کہ اگر وقت اور حالات کا تقاضا ہو تو زمین بیچ سکتے ہو۔پھر قیوم کی سازشوں نے بھی وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ورنہ جہاں انسان پیدا ہو اور پلا بڑھا ہو اس جگہ سے ہمیشہ انسیت محسوس ہوتی ہے میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں گاوں جاوں اپنی حویلی میں کھبی کھبی جا کر رہوں۔ گاوں کی تازہ ہوا کا لطف لوں۔ مگر میں اپنے اکلوتے بیٹے کو دشمنوں کے سامنے نہیں لانا چاہتا۔ افسوس کہ میرے بیٹے کا نہ تو ننھیال ہے نہ ہی ددھیال۔
شبنم اپنے ماضی سے کھبی پریشان ہو جاتی وہ سوچتی کہ فواد کو جھوٹ سے نفرت ہے کاش وہ اسے پہلے دن ہی سچائی سے آگاہ کر دیتی تو آج سرخرو ہوتی اور اتنے مسئلے میں نہ پڑتی۔ فواد اتنے اچھے انسان ہیں وہ اس کی مجبوری کو ضرور سمجھتے ہوئے اس کا ساتھ دیتے۔ کھبی خیال آتا کہ بتا دے کھبی سوچتی وہ کیا سوچیں گے کہ پہلے کیوں نہیں بتایا۔ اسی کشمکشِ میں وہ رہتی۔
ایک دن اس مسئلے کا ڈاکٹر صاحب سے زکر کیا تو وہ بھی اسے تسلی بخش جواب نہ دے سکے بولے تم اپنے شوہر کو مجھ سے زیادہ جانتی ہو اگر مناسب سمجھتی ہو تو بتا دو۔ شبنم نے گاڑی ڈرائیو کرنی بھی سیکھ لی تھی اور ایک چھوٹی گاڑی اسے فواد نے لے کر دے دی تھی اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی کہ وہ کدھر جائے کیا کرے۔ وہ بزنس کے سلسلے میں بھی ادھر ادھر آتی جاتی رہتی تھی۔
فواد نے دیکھا وہ گھر کی زمہ داری بھی نبھاتی ہے اور لاڈلے بیٹے کی خدمت بھی کرتی ہے تو فواد نے بزنس کا سارا نظام اپنے زمے لے کر اسے آزادی دے دی وہ اسے کہتا کہ کوئی دوست وغیرہ بنا لو گھر میں سہیلیوں کو بلایا کرو ان کے ساتھ شاپنگ پر جایا کرو مگر اس نے اس کی دی ہوئی آزادی کا کھبی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا وہ اس کے اکاؤنٹ میں کھلے پیسے ڈال دیتا اسے اپنی شاپنگ کرنے پر اصرار کرتا مگر وہ گھر کی ضروریات کی ہی چیزیں لاتی اور اپنی زات پر نہ خرچ کرتی۔
امر اب یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا مگر رویہ اسی طرح طنزیہ اور نفرت انگیز تھا۔ وہ شبنم کو کھبی ماں نہ پکارتا فواد اسے ماں کہنے پر اصرار بھی کرتا تو وہ اکڑ سے کہتا سوری یہ صرف میرے باپ کی بیوی ہیں میرا ان سے کوئی رشتہ نہیں۔
امر دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا ہوا تھا۔ جب سے فواد کے بزنس کو عروج ملا تھا اور گھر میں خوشحالی آئ تھی دولت تو پہلے بھی تھی مگر اس نے بیٹے پر ظاہر نہ کی تھی جب بزنس سے کھلا پیسہ آنے لگا تو امر کی فرمائشیں بھی بڑھنے لگیں اس نے بڑے اور پوش علاقے میں گھر شفٹ کروایا۔ اپنے لئے مہنگی گاڑی کی فرمائش پوری کروائی۔ باپ کچھ پس و پیش کرتا تو شبنم سفارش کر کے پوری کروا دیتی۔
امر سب سمجھتا تھا مگر پھر بھی اپنا رویہ درست نہ کرتا۔ کھبی اس کے لیے کوئی تحفہ نہ لاتا باپ کے لیے جان بوجھ کر لاتا۔ باپ کہتا کھبی ماں کے لئے بھی لے آیا کرو تو وہ کہتا وہ میری ماں نہیں۔
شبنم کھبی کھبی اس کے رویے سے آبدیدہ ہو کر رہ جاتی اور آنسو اپنے اندر ہی جزب کر لیتی۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔
شکریہ۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.