بچھڑے پیار کی آمد 1
Episode 1
بہار آج اپنے کولیگ کے بھائی کی شادی میں بیٹھی موبائل پر بیٹی کو بتا رہی تھی کہ بس رباب بیٹا جوں ہی کھانا کھلا میں فوراً آ جاوں گی کیا کروں تمھاری آنٹی مجھے کھانا کھاے بغیر نہیں آنے دے رہی۔ فون بند کر کے اس نے پرس میں رکھا اور سیدھی ہو کر بیٹھی تو پاس بیٹھی عورت اس سے پوچھنے لگی۔ بیٹی پریشان ہو رہی کیا۔۔۔
بہار نے ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ وہ دراصل ہوسٹل میں رہتی ہے ناں اس لئے بے چاری کیا کرے باپ کا سایہ سر پر نہیں ہے ایک میرا ہی دم ہے اس کے لیے۔
وہ عورت حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے بولی اوہو بہت افسوس ہوا تو کیا آپ بیوہ ہیں۔ کتنے بچے ہیں آپ کے۔
بہار نے کہا کہ بس ایک ہی بیٹی ہے۔
وہ عورت پوچھنے لگی تو گزر بسر کیسے ہوتی ہے آپ کی۔
بہار نے جواب دیا کہ اس کے باپ کی پنشن ہے انیسویں گریڈ میں تھے وہ بھی ٹیچر تھے۔
وہ عورت مسکرا کر بولی اچھا لو میرج تھی۔
بہار نے جواب دیا نہیں انہوں نے ہی پسند کیا تھا۔
وہ فوت کب ہوے۔۔
دس سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔
آپ کہاں رہتی ہیں۔
بہار نے کہا کہ میں ایک محلے میں رہتی ہوں اپنی بوڑھی بیوہ خالہ کے ساتھ ان کے گھر میں۔ دراصل ان کے دو بیٹے اپنی فیملیز کے ساتھ ملک سے باہر رہتے ہیں اور بہن شادی شدہ ہے اس کے سسرال میں انہیں ماں کو ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں۔ پھر ان کا آبائی گھر ہے۔ میں بیوہ تھی مجھے بھی گھر کی ضرورت تھی میں اکلوتی تھی والدین وفات پا چکے تھے۔ خالہ کے بچوں نے مجھے خالہ کے آبائی گھر رہنے پر آمادہ کر لیا۔ مجھے بھی یہاں سے کالج نزدیک پڑتا تھا اور خالہ جی بھی اکیلی تھیں میں نے کرایہ دینا چاہا تو انہوں نے کہا کہ آپ بس ان کو ساتھ رکھ لیں کھانا پانی دے دیا کرنا ہم کرایہ نہیں لیں گے۔ وہ تو ویسے بھی میں خالہ کی خدمت کرتی۔ اب بیٹی گھر آئی ہے اور مس کر رہی ہے۔
شادی میں کھانا پہلے مردوں کو دیا جاتا ہے۔ حالانکہ پہلے عورتوں اور بچوں کو دینا چاہیے۔ معصوم بچے ماوں کی جان کھا رہے ہوتے ہیں اور چپس اور بسکٹ سے ماہیں بہلا رہی ہوتی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں لنچ باکس سسٹم ہو تاکہ ہر کسی کو برابر ملے۔ کھانا بھی چوری سے بچ جائے۔
دوسری عورت نے کہا کہ آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔
بہار نے پوچھا آپ کا کیا نام ہے۔
شمیم عورت نے جواب دیا۔ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ سب شادی شدہ ہیں۔ میں یہاں بھائی کے کہنے پر ساتھ آئی ہوں۔ بھائی کے دوست ہیں۔
ان کی بیوی نہیں آئی بہار نے پوچھا۔
نہیں شمیم نے جواب دیا۔
شمیم نے اپنے بھائی کا بتانا شروع کیا کہ میرے بھائی کے ساتھ ٹریجڈی ہوئی ہے۔ابا جی نے دوست سے زکر کیا کہ وہ فلاں جگہ اپنے بیٹے کا رشتہ دیکھنے جاے گا۔
دوست نے کہا کہ تم باہر کیوں جاو جبکہ میری بیٹی گھر میں موجود ہے میں بھی اس کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ کل ہی آو اور میری بچی کو انگوٹھی پہنا جاو۔ ابا جی مجبور ہو گئے اور گھر آ کر زکر کیا۔ اور گھر والوں کو کہا کہ اب وہاں نہیں جانا جہاں لڑکی دیکھ کر آے تھے بھائی کو بھی دکھائی تھی اس کی شرط تھی کہ لڑکی دیکھ کر کرے گا اور دیکھ کر پسند آ گئی تھی اور اب ان کے گھر رشتہ پکا کرنے جانا تھا۔ مگر ان کے دوست نے ابا جی کے پاوں پکڑ لیے کہ میری بیٹی کو اپنا لو وہ کم پڑھی اور کم صورت ہے گھر میں نوکرانی بنا کر رکھ لینا مجھے ڈاکٹروں نے جواب دیا ہوا ہے بن ماں کی بچی ہے۔ میرے بعد کدھر جائے گی۔ اباجی کے دل میں رحم آ گیا اور ان لوگوں کو جواب دے دیا۔ اور ابا جی نے فیصلہ دے دیا کہ نہ صرف ادھر رشتہ دیکھنے اور کرنے جانا ہے بلکہ ساتھ ہی نکاح بھی کر کے آنا ہے۔ بھائی کو وہ لڑکی بہت پسند آئی تھی مگر ادھر انکار بھجوا دیا گیا اور گھر والوں کی مرضی کے خلاف جا کر ابا جی نے بیٹے کو اموشنل بلیک میل کیا اور کہا کہ تم بعد میں اپنی مرضی سے اسی لڑکی سے یا جس سے مرضی شادی کر لینا بس ایک بار ادھر شادی کر لو میرا دوست مرنے والا ہے میں اس کی خواہش رد نہیں کر سکتا۔ اس طرح جب ہم سب ان کے گھر گئے تو وہاں ایک موٹی تازی لڑکی تھی سانولی اور مڈل تک بھی نہ پڑھی تھی۔ میں عمرہ کرنے گئی ہوئی تھی۔ میں نے تو وہ لڑکی بھی نہ دیکھی جو میرے بھائی کو اتنی لڑکیوں کو ناپسند کرنے کے بعد پسند آئی تھی۔ ابا جی بھی لڑکی دیکھ کر سٹپٹا سے گئے بھائی کے پاس آ کر بولے اس نکاح کو کرنا ہماری مجبوری ہے ایک مرتا ہوا انسان منتیں کر رہا ہے مگر میں جلد ہی جہاں تم چاہتے تھے ان سے معزرت کر کے تمھاری شادی اس سے کروا دوں گا۔
نکاح ہوا اور سب بےزار گھر واپس آئے۔ چند دن گزرنے کے بعد ابا جی نے ان لوگوں کو فون کیا اور معزرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ آنا چاہتے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے بہت غصہ دیکھایا اور کہا کہ ہم نے اس کی شادی کر دی ہے۔
بھائی نے سنا تو بہت واویلا مچایا کہ اگر دوست سے ہمدردی ہی کرنی تھی تو اس کی بیٹی کو گھر رکھ لیتے اس کی زمہ داری اٹھا لیتے دوست کو تسلی دے دیتے کہ ہم اس کی شادی بھی اچھا رشتہ دیکھ کر کروا دیں گے مگر یہ
کہاں کا انصاف ہے کہ بیٹے کو ہی قربانی کا بکرا بنا دو۔ اس نے پھر ضد میں نہ صرف دھوم دھام سے شادی کروائی بلکہ اور شادی کے لئے بھی نہ مانا اور وہ عورت ایک سال زندہ رہی بیٹی کے پیدا ہوتے ہی فوت ہو گئ۔ میں جب عمرے سے آئی تھی تو اس سے چوری چھپے لڑکیاں دیکھتی تھی اور آج تک دیکھ رہی ہوں۔ میرے ابا جی تو کہتے کہتے تھک گئے کہ دوسری شادی کر لو مگر وہ نہیں مانتا۔ بچی اب دس سال کی ہے اب ابا جی نے اسے نیم رضامند کر لیا ہے اب کہتا ہے جس سے مرضی کروا دیں۔
بہار نے پوچھا کھبی اس لڑکی کا کوئی اتا پتا ملا۔
شمیم نے جواب دیا میں گئی تھی کہ اگر منگنی ہوئی ہے تو بات بن سکتی ہے میرا بھائی اسے ابھی تک نہیں بھولا نام لو تو اس کے چہرے پر غم کے بادل چھا جاتے ہیں۔ مگر پڑوس سے پتا چلا کہ وہ لوگ اس کا نکاح کرتے ہی ادھر سے شفٹ ہو گئے ہیں تھے۔ مجھے اس کو دیکھنے کی حسرت ہی رہ گئ۔
فوٹو بھی نہیں ہے کوئی اس کی۔
شمیم بولی میں نے فون پر اس سے کہا تھا کہ فوٹو ان سے لیکر مجھے سینڈ کرو مگر بھائی کہتا کہ مجھے شادی سے پہلے اس طرح فوٹو رکھنا پسند نہیں میرے دل پر لگی ہوئی ہے وہیں سے دیکھ لیتا ہوں۔
شمیم نے ایک بچے کو آواز دی اور بھائی کو بلانے کا بولا۔ پھر اس نے بھائی کو زرا پرے جا کر سرگوشی والے انداز میں بتایا کہ اس نے تمھارے لیے ایک لڑکی پسند کر لی ہے تم کنواری کے لئے بھی نہیں مانتے کہ میں خود کنوارہ نہیں ہوں۔ بھائی نے لاپرواہی سے جواب دیا پلیز مجھے مت دیکھاہیں بس کرا دیں جس سے بھی کروانی ہے۔
بہار کو کچھ شمیم کی باتوں سے شک گزرا۔
شمیم مسکراتی ہوئی اس کے پاس آ بیٹھی اور بہار سے بولی۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ بولنے ہی لگی تھی کہ رباب کا فون آ گیا کہ ماما میں اپنی فرینڈ کے ساتھ اس کے گھر جا رہی ہوں پھر وہ مجھے ہوسٹل چھوڑ دے گی اور خالہ بی کے پاس کام والی بیٹھی ہوئی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ اس نے انہیں کھانا کھلا کر روا دے دی ہے اب وہ آرام سے اس کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہی ہیں آپ اب آرام سے آنا۔
بہار نے سانس بھر کر فون پرس میں واپس رکھ دیا۔
شمیم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہ بہار آپ مجھے بہت اچھی لگی ہیں اور میں اُدھر ادھر کی باتیں کر کے وقت برباد نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے آپ کی سٹوری سنی اور لگا کہ ہمیں اپنے بھائی کے لئے آپ جیسی ہی چاہیے تھی اور میں آپ کی شادی اپنے بھائی ارشاد سے کرنا چاہتی ہوں۔ اور اس سلسلے میں آپ کی خالہ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔
بہار نے سنا اور برا مناتے ہوئے بولی پلیز آپ اس ٹاپک پر بات نہ کریں میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی میری جوان بچی ہے۔ اس کی شادی کی عمر ہے۔ وہ اٹھ کر دور چلی گئی۔ کھانا لگ گیا اور شمیم اس کے پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی مگر وہ اسے اگنور کرتی رہی۔
بہار نے کولیگ سے کہا کہ وہ تھک گئی ہے اور گھر جانا چاہتی ہے۔
اس کی کولیگ نے کہا اچھا آو میرے ساتھ بہار نے نقاب پہن لیا اور ساتھ چل پڑی۔ اس کی کولیگ شمیم کے پاس لے گئی جو گاڑی میں بیٹھنے لگی تھی ان سے بولی پلیز ان کو بھی ڈراپ کر دینا۔
شمیم خوش دلی سے دروازہ کھول کر بولی بیٹھیں۔
بہار شش وپنج میں کھڑی تھی کہ ارشاد وہاں پر فون کرتا آیا۔
بہار نے غور سے دیکھا جو چہرے سے جانا پہچانا لگ رہا تھا اسے دیکھ کر اس کے پرانے زخم ہرے ہو گئے تھے۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرتا نہ بھولیں شکریہ۔
ناول نگار عابدہ زی شیریں
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.