Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 2

Episode 2

بہار نے اتنے سالوں بعد بھی دیکھا اور اسے پہچان لیا تو کیا شمیم اس کی بہن ہے۔ ارشاد اس کو نہ یہچان سکا کیونکہ اس نے نقاب کیا ہوا تھا۔ وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی اپنے رویے پر شرمندہ سی تھی۔


شمیم نے جب بھائی ارشاد کے پوچھنے پر اس سے گھر کا راستہ پوچھا تو وہ چونکی۔ اس نے آہستہ آہستہ شمیم کو راستہ بتانا شروع کیا اور ساتھ میں معزرت کی کہ ان کو ڈراپ کرنے کی تکلیف دی۔ تو شمیم نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسکرا کر اسے دیکھتےہوے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کے گھر آنے کی تکلیف کرنے کو ہم بار بار تیار ہیں۔


بہار نے سر جھکا لیا۔


شمیم نے پیار سے اس کا ہاتھ سلایا۔


گھر آیا تو بہار کے لیے تیزی سے اتر کر دروازہ کھولا اور اس نے شمیم سے کہا کہ آپ آہیں پلیز۔


شمیم نے مسکرا کر کہا گھر دیک لیا ہے پھر کھبی ضرور آہیں گے۔


بہار کو اتار کر ارشاد نے تیزی سے گاڑی چلا دی۔


وہ بس کھڑی گاڑی کو دور سے جاتے دیکھتی رہی۔


ملازمہ جو دن رات کے لیے رکھی تھی اس کو فون کیا آج مہندی کا فنکشن تھا وہ بھی گھر میں۔ رات زیادہ ہو چکی تھی ملازمہ نے کافی بیل کے بعد دروازہ کھولا تھا۔ اس کی آنکھیں نیند سے بھری ہوئی تھی۔


گھر آئی تو خالہ سو چکی تھی۔


وہ کپڑے چینج کر کے بستر پر لیٹ گئ اور ماضی میں کھو گئ۔


بہار متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی باپ کلرک تھا کالج میں۔ وہ اکلوتی اولاد تھی۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ باپ کے کالج میں پڑھتی تھی۔ پڑھائی میں تیز تھی وضیفہ لیتی اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتی۔ ماں انپڑھ تھی وہ اس کی جلد شادی کی خواہش مند تھی مگر باپ نہ مانتا۔ وہ سلجھی ہوئی تھی۔ ماں کی ڈانٹ ڈپٹ اور وارننگ کے اگر کالج جا کر تو نے کوئی عاشقی معشوقی کا کام شروع کیا یا مجھے زرا سی بھی بھنک لگی تو تیری پڑھائی تو ختم ہو گی ہی اسی وقت رشتہ ڈھونڈ کر جلدی سے شادی کروا دوں گی سمجھی۔


ماں سہلیاں بنانے کے حق میں بھی نہ تھی اس کا خیال تھا کہ اکثر انسان دوستوں کے کہنے پر نہ چاہتے ہوئے بھی غلط کام کرنے لگتا ہے اور اجکل کے زمانے میں کوئی سچا دوست ملنا مشکل ہے۔ لڑکیاں تو کالج میں پڑھنے کم اور فیشن دیکھانے زیادہ جاتی ہیں اور دوستیاں کرتی اور وقت اور اکثر لڑکوں کے چکر میں پڑ کر اپنی زندگی برباد کر لیتی ہیں۔


بہار کی ماں اسے فیشن بھی نہ کرنے دیتی۔ خاندان میں یا پڑوس میں کسی سے دوستی بھی نہ کرنے دیتی۔ نہ کسی کو گھر لانے دیتی۔ گانے سننا فلمیں دیکھنا بھی اس پر محال تھا۔ باپ کی شہہ پر کھبی سنتی تو ماں باپ کی بحث شروع ہو جاتی تو اس نے وہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ لیب ٹاپ بھی سیکنڈ ہینڈ بڑی مشکلوں سے اس نے پاکٹ منی بچا کر اور کالج میں اجرت پر ان کو نوٹس بنا کر دیتی۔ وہ ماں سے ڈر کر کسی کو دوست نہ بناتی۔


ماں اسے زبردستی گھر کے کام سکھاتی۔ اس سے کہتی جتنا مرضی پڑھ لو مگر جتنا ضروی گھر کا کام سیکھنا ہے اور جو زندگی میں سب سے زیادہ یہی چیز فاہدہ دیتی ہے کوئی ڈگری نہیں دیتی۔ جتنے بھی امیر ہوں ملازموں کے ہاتھوں کا پکا کھانا جس میں صفائی ستھرائی کا کوئی دخل نہیں ہوتا اپنا ہنر آنا چاہئے کم از کم کھانا بنانے کا۔ اس کو ماں نے بچپن سے ہی ایسے کاموں میں طاق کر دیا تھا۔ ماں اسے پڑھائی کا بہانہ بنا کر کام سے چھٹی نہ دیتی تھی۔ اس لئے کالج میں جو بھی وقت ملتا وہ وقت ضائع کیے بغیر اپنی پڑھائی میں مگن رہتی تھی کالج میں وہ مس پڑھاکو کے نام سے مشہور تھی۔ اسے ماں گھر سے لنچ دے کر بھیجتی۔ کینٹین جانا وہ ویسے بھی افورڈ نہیں کر سکتی تھی اور جانے آنے میں وقت کا ضیاع تھا۔ گھر آ کر گھر کے کام بھی نمٹانے ہوتے تھے کیونکہ ماں اور باپ دونوں بیمار رہتے تھے۔ ان کی دوائیاں ہی مشکل سے افورڈ ہوتی تھی پھر اسے ماں کا احساس بھی رہتا تھا اور اب تو وہ خود ہی زیادہ سے زیادہ کام خود کرنے کی کوشش کرتی تاکہ ماں کو آرام دے سکے۔ باپ کی ضروریات کا خیال رکھتی ان کو وقت پر دوا یاد کراتی۔ ان کے کپڑے جوتے تیار کرتی۔ ایک مشین بن چکی تھی۔ ماں سے جو ہو سکتا اس کا احساس کر کے بیماری میں بھی لگی رہتی۔ بہار ماں سے ناراض ہوتی کہ آپ ریسٹ کیا کریں میں آ کر خود کر لوں گی تو ماں جواب دیتی کام کرتی ہوں تو ابھی تک بچی ہوئی ہوں ورنہ کام چھوڑا تو چارپائی پر پڑ جاوں گی کام کھبی نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ جسم کی ورزش نہیں ہوتی کھانا ہضم نہیں ہوتا اور زیادہ صحت خراب ہوتی ہے جسم کام نہ کرنے سے سست اور جڑ سا جاتا ہے۔ گاوں کی عورتوں کے اکثر نارمل بچے کیوں ہوتے ہیں کہ وہ حاملہ ہونے کے باوجود گھر کے کام اسی روٹین میں کرتی رہتی ہیں اور جسم کی ورزش رہتی ہے اور بھوک کھلتی ہے اور کھانا بھی کھایا جاتا ہے اور بچے کو بھی فاہدہ ملتا ہے اندر پوری خوراک جانے سے باڈی ایکٹیو رہتی ہے اور بچے بھی نارمل ہوتے ہیں کیونکہ وہ روٹین کی روٹی سالن کھاتی ہیں اور روٹی میں سب سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ جبکہ شہر کی لڑکیاں کھانا پینا چھوڑ دیتی ہیں بستر پکڑ لیتی ہیں آرام کرنے لگتی ہیں اور مصنوعی طاقت کی چیزیں جو ڈاکٹر لکھ دیتے ہیں اسے پیتی رہتی ہیں اور۔۔۔۔


باپ نے ٹوکا کیا بے معنی ٹاپک شروع کر دیتی ہو۔


ماں نے کہا کہ یہ باتیں اس کی زندگی میں کام آہیں گی میں نہیں بتاوں گی تو کون بتائے گا۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہیک، شہیر، اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.