Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 6

Episode 6

کالج والوں نے ہدایت کو ہاسپٹل پہنچایا۔ بہار بری طرح رو رہی تھی اور اس کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ ساتھی کولیگ اسے چپ کروا رہی تھی۔ اس نے ہدایت کے فون سے مامی کو اطلاع دی۔ اپنی ایک ہی خالہ تھی۔ اسے فون کیا۔


مامی کے بچے آئےاور اس کو آسرا مل گیا۔ خالہ بھی آ چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہدایت کی موت کی اطلاع دی۔ بہار بےہوش ہو گئ۔ اسے ساتھی کولیگ نے سنبھالا اور ہوش میں لاے۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی وہ بے آسرا ہو چکی تھی۔ اس کا اور رباب کا وہ جیسا بھی تھا ایک مضبوط ستون تھا۔ خالہ اسے تسلیاں دے رہی تھی۔


دوسرے دن ہی قل کے ساتھ چالیسواں کر دیا گیا۔ خالہ اسے اپنے ساتھ لے آئی۔ رباب چھوٹی بچی تھی بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو اور باپ کو دیکھتی رہی تھی۔


خالہ ایک پرانی ملازمہ کے ساتھ اپنے آبائی گھر میں رہتی تھی۔ خالہ کے بیٹے اپنی فیملیز کے ساتھ باہر ہوتے تھے۔ انہوں نے اسے افسوس کا فون کیا۔ کہ آپ ہمارے گھر میں ہماری ماں کے پاس رہ جاہیں انہیں بھی کمپنی مل جائے گی اور آپ کو بھی۔ آپ اکیلی ہیں بچی کا ساتھ ہے۔


بہار نے رب کا شکر ادا کیا جس نے بیٹھے بٹھاے اس کا اچھا بندوبست کر دیا تھا۔ بہار غیرت والی تھی۔ اس نے کرایہ آفر کیا تو ان کے بچوں نے کہا کہ بس آپ ان کو کھانا پینا دے دیا کریں کراے کی ضرورت نہیں۔


بہار نے کہا کہ آپ نہ بھی کہتے تب بھی دیتی۔


بہار خالہ کے گھر شفٹ ہو گئی۔ ادھر سے اس کا کالج بھی نزدیک پڑتا تھا۔ خالہ کا گھر دس مرلے کا تھا خالہ نیچے والے پورشن میں رہتی تھی۔ اوپر کراے پر دیا ہوا تھا۔ پرانے رہ رہے تھے اچھے لوگ تھے اس کی خالہ کا خیال بھی رکھتے تھے مگر اتنا نہیں۔ کیونکہ خالہ کسی کی دخل اندازی پسند نہ کرتی تھی۔


بہار کی خالہ اس کی سگی خالہ نہ تھی اس کی ماں کی کزن تھی امیر تھی اس لئے بہار کی ماں سے تعلق صرف خوشی غمی تک ہی رکھا ہوا تھا اس نے اپنے بیٹوں کی شادیاں امیر گھرانوں میں کیں۔ بیٹی بھی امیروں میں بیاہی۔ بہار کی طرف اس کی غربت کی وجہ سے دھیان نہ دیا کہ اس کا رشتہ کر لیتی۔


جب بہوؤں نے شوہروں کو باہر بلا لیا کیونکہ خالہ نے گرین کارڈ کے لالچ میں دو بہنوں کو ایک ہی گھر سے بیاہ دیا۔ دونوں خوبصورت بھی نہ تھیں اور نخرے والی تھیں۔ خالہ کو نہ پوچھتیی۔ فون بھی نہ کرتیں۔ کھبی بھولے سے کر بھی لیں تو لمبی بات نہ کرتیں۔ بیٹے ماں کو اکثر فون کرتے رہتے۔ اور خرچہ بھی بھیجتے۔ تحفے تحائف بھی بھیجتے۔ بیٹی اکثر آتی جاتی مگر ماں کو پاس نہ رکھ سکتی تھی فون پر بھی معزرت کرتی کہ وہ ان کی خدمت نہ کر سکتی تھی۔ اب بہار کے آ جانے سے پرسکون ہو گئ تھی۔ بہار نے گھر کا نظام اچھی طرح سنبھال لیا تھا۔ اس کے آنے سے گھر میں رونق ہو گئ تھی رباب بھی تمیزدار بچی تھی تنگ نہ کرتی تھی۔ حالانکہ وہ اس وقت ٹین ایج میں تھی مگر باپ سے اسے کوئی پیار نہ ملا تھا اس لیے وہ بہار سے اٹیچ رہتی۔ ابھی تک بچوں کی طرح رہتی۔


بہار بھی اسے بچہ ہی بناے رکھتی۔ وہ خالہ کو نانی پکارتی۔


بہار نے ہدایت کے جمع شدہ رقوم کو فکس کروا دیا اور اپنی تنخواہ سے گھر کا نظام چلانے لگی۔ اس نے وہ رقم رباب کی پڑھائی اور اس کی شادی کے لئے مختص کر دی۔ حالانکہ اس رقم میں بہار کی آمدن بھی شامل تھی جو ہدایت لے لیتا تھا اور کنجوسی سے خرچہ کرتا تھا۔ بہار بھی کھبی تنگ نہ کرتی اس نے اپنی خواہشات کو مار لیا تھا۔ بیٹی بھی باپ کی پرورش میں دبی دبی رہتی تھی۔ باپ سے ڈرتی۔ کھبی فالتو بات نہ کرتی۔ نہ کوئی فرمائش کی جرآت کرتی۔


خالہ جب سے اکیلی ہوئی تھی اسے اپنے رشتے دار یاد آنے لگے تھے اب وہ غریبوں سے بھی ملنے لگی تھی کیونکہ وہ اسے وقت اور عزت دیتے تھے۔ اسے بہار کی عادات بہت پسند آئی تھی۔ اب وہ اکثر پچھتانے لگتی جو باہر کا لالچ اس نے کیا تھا اب بچوں سے بھی جدا ہونا پڑا تھا۔ یہاں بھی بچے عزت سے رہ رہے تھے۔ مگر زیادہ کا لالچ اسے بیٹوں پوتے پوتیوں سے جدا کر گیا۔ وہ ان کے بچپن کو انجوائے نہ کر سکتی تھی۔ بس تصاویر سے ہی دل بہلاتی رہتی تھی۔ بیٹی کا ایک ہی بیٹا تھا وہ سسرال کی آنکھ کا تارا تھا ساس اسے میکے نہیں لے جانے دیتی تھی۔ نانی کو وہ بھی نہ مل سکتا تھا اسی لیے وہ رباب سے دل بہلانے لگی۔


وہ سوچتی کاش وہ امیری غریبی کا فرق نہ دیکھتی تو بہار جیسی اچھی لڑکی اس کی زندگی میں بہار بن کر آتی۔ اس کے پاس ہونے سے اسے کتنا سکھ ملا تھا وہ بیٹی سے بڑھ کر اس کا خیال رکھتی تھی اب بیٹے بھی سکون میں آ گئے تھے۔ وہ اب فون پر اس کا شکریہ ادا کرتے رہتے تھے۔ اس کے لیے اور رباب کے لے گفٹس بھی بھیجتے تھے۔ رباب بہت خوش ہوتی انہیں ماموں پکارتی۔ وہ کچھ فرماہش پوچھتے تو نہ بتاتی شرماتی۔ خالہ اس کی اور بہار ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بتا دیتی جیسے انہوں نے مہنگا موبائل فون اور لیب ٹاپ انہیں بھیجا۔ دونوں ماں بیٹی بہت خوش ہوئی کیونکہ دونوں کے لیے الگ الگ تھا۔


بہار کی کولیگ اسے دوسری شادی کا مشورہ دیتیں۔ کئی تو رشتے بھی دیکھاتیں۔ مگر بہار نہ مانتی کہتی میری بیٹی جوان ہے۔


کولیگ تپ کر کہتیں بے وقوف وہ تمھاری سگی بیٹی نہیں ہے تم سے تھوڑی ہی چھوٹی ہے تم نے اس کی وجہ سے اپنے آپ کو بوڑھا کیا ہوا ہے۔ اگر شادی کے بعد تمھاری کوئی اولاد ہوتی تو وہ بمشکل سات آٹھ سال کی ہوتی۔ ابھی تو تم جوان ہو خود بھی بچہ پیدا کر سکتی ہو


بہار سرد آہ بھر کر بولی اگر بچہ پیدا کر سکتی تو ہدایت کا نہ کر سکتی۔ کتنا اس کو بیٹے کا شوق تھا۔ کتنے جتن کیے کتنے ٹیسٹ کرواے مگر بچہ نہ ہو سکا۔


رباب نے کہا کہ ماما میری دوست کی کزن کی برتھ ڈے ہے۔ اور اس نے مجھے بھی انواہیٹ کیا ہے ان لوگوں نے اپنی نانو کے قریب گھر لے لیا ہے۔ کیا کرو بتائیں میری بہت اچھی دوست ہے کہتی ہے بہت مزہ آے گا اس کے ماموں اس کی سالگرہ بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں۔


بہار نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر میں خود تمھیں چھوڑنے جاوں گی اور لینے بھی آوں گی۔


رباب جلدی سے بولی ماما میری اور بھی کلاس فیلوز بھی جاہیں گی ایک خود گاڑی چلاتی ہے وہ ہم سب فرینڈز کو پک اینڈ ڈراپ دے گی آپ فکر نہ کریں۔


رباب جواہن سٹڈی کے لئے ایک گھر نما ہاسٹل میں رہتی تھی جو گھر کے قریب ہی تھا اور وہاں پر رہنے والی ٹیچر سے ٹیوشن بھی لیتی تھی اس لئے وہ پڑھائی کے آخری سال میں تھی۔ رباب اب اس کی شادی کرنا چاہتی تھی اس نے رشتے کے لئے آگے پیچھے اپنی کولیگز کو بھی کہہ رکھا تھا۔


خالہ اس کو دوسری شادی کا مشورہ دیتی رہتی وہ کہتی بیٹی کے فرض سے فارغ ہو جاوں پہلے۔


رباب تیار ہو کر اپنی فرینڈز کے ساتھ سالگِرہ پر چلی گئ سب دوستوں نے ملکر مشترکہ بڑا گفٹ دیا تھا۔


جب سے بہار شادی پر سے واپس آئی تھی ارشاد کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ اس کی بہن اس پر فدا تھی شمیم آپا اب اکثر اسے فون پر حال احوال بھی پوچھتی رہتی تھی اور اس کے رشتے کے لئے اسے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر راضی کر پائ تھی۔ بہار نے شرط رکھی تھی کہ پہلے وہ بیٹی کا رشتہ کہیں ڈھونڈ لے۔ شمیم آپا نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے۔ جلدی ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔


بہار اس سے اس گھر اور گھر کے بارے میں کوئی بات نہ پوچھتی تھی نہ ہی شمیم آپا اسے کچھ بتاتی تھی۔ جب سے ارشاد نے اسے بتایا تھا کہ جس کے بارے میں تم اسے بتا رہی تھی وہ بہار ہی ہے اس نے اس کی آنکھوں سے اس کی آواز سے اسے پہچان لیا تھا اور وہ اب اس سے شادی کے لئے بےچین تھا آپا نے اسے تسلی دے دی تھی کہ وہ اسے راضی کر چکی ہے بس اس کی بیٹی کا جلدی سے کہیں رشتہ مل جائے تو وہ دیر نہیں کریں گی۔


رباب سالگِرہ سے واپس آئی تو ماں کی بانہوں میں لپٹتے ہوئے بولی ماما مجھے لو ہو گیا ہے۔ وہ بہت گریس فل پرسنیلٹی کا مالک ہے۔ میں بس اب اسی سے شادی کروں گی۔ ورنہ مر جاوں گی اگر مجھے وہ نہ ملا۔


بہار نے کہا کون ہے کیا کرتا ہے کس کا بیٹا ہے وغیرہ وغیرہ۔


رباب جھٹ سے موبائل اٹھا کر لے آئی اور بولی ماما جس کی سالگِرہ پر میں گئی تھی اس کا باپ ہے یہ دیکھیں پکچر ہینڈسم ہے ناں۔


جب بہار نے فوٹو دیکھی تو دنگ رہ گئ وہ تو ارشاد کی فوٹو تھی۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔




Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.