Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 9

Episode 9

شمیم نے بہار کو ارشاد کی رضامندی کا بتا دیا وہ فون پر مسلسل اس سے رابطے میں رہتی تھی۔ وہ بہار سے بہت معزرت کرتی تھی کہ وہ اس کے اور ارشاد کے لیے کچھ نہ کر سکی۔ وہ اسے بھائی کی طرف سے تسلی بھی دیتی تھی کہ وہ بیٹی کے لئے پریشان نہ ہونا اب بھائی مان نہیں رہا اب مانا ہے تو وہ اس کو اچھی طرح سے بھی نبھاے گا۔ اس نے کھبی پہلی بیوی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا کہتا تھا کہ اگر یہ خوبصورت نہیں ہے انپڑھ ہے تو اس میں اس کا کیا قصور۔ کیا صرف خوبصورت عورتوں سے ہی پیار کرنا چاہیے اگر اپنے گھر میں بہن، بیٹی ایسی ہو تو کیا اس کو پیار نہیں کرتے۔


بہار نے کہا کہ میں نے تو ویسے بھی اب شادی نہیں کرنی تھی بیٹی کی شادی ہو جائے گی اس کے بچوں سے دل بہلاوں گی۔ آپ کی وجہ سے میں نیم رضامند ہو گئ تھی کہ ارشاد جیسا جیون ساتھی خوش نصیبوں کو ملتا ہے اور اگر یہ خوش نصیبی میری بیٹی کے حصے میں آے تو میں زیادہ خوش اور پرسکون رہوں گی۔ میں نے تو خالہ سے بھی ابھی تک اپنے رشتے کا کوئی زکر نہیں کیا تھا کہ جب ہو گا دیکھا جائے گا مجھے بات کرتے شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی کہ بیٹی جوان ہے تو اس کو اپنے رشتے کی پڑی ہے۔


شمیم بولی یہ تو تم نے عقلمندی کی جو خالہ کو نہیں بتایا ورنہ مجھے اب تمھاری بیٹی کا رشتہ مانگتے شرمندگی محسوس ہوتی۔ اور تم ابھی خود تیس بتیس سال کی ہو اس عمر میں ابھی کئ لڑکیوں کی شادی بھی نہیں ہوتی ہے۔ جب تمھاری شادی ہوئی تو وہ بارہ تیرا برس کی تھی اور تم بیس کی۔ وہ تم سے بارہ، تیرا سال ہی چھوٹی ہے۔ تم نے جوانی میں اپنے اوپر بڑھاپا طاری کیا ہوا ہے۔ کاش ابا جی ضد نہ کرتے اور رباب کی شادی علی سے کر دیتے جو میرے جیٹھ کا بیٹا ہے۔ وہ فیملی بہت اچھی ہے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے بیٹی شادی شدہ ہے۔ فیملی امیر اور پڑھی لکھی ہے۔ لڑکا جوان ہے۔ وہ رباب سے پیار کرتا ہے۔ اس کے والدین اس رشتے کے لئے بخوشی راضی ہیں وہ کہتے ہیں کہ بچی بہت معصوم اور دل کی اچھی ہے بس عمر کا تقاضہ ہے کہ اس عمر میں کچھ بچیاں ایسے آہیڈیل بنا لیتی ہیں بعد میں پچھتاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نکاح سے ایک منٹ پہلے بھی راضی ہو گئ تو ہم رشتہ کر لیں گے۔ وہ ابھی ابھی امریکہ سے پاکستان شفٹ ہوے ہیں وہ جلد بیٹے کی شادی کرنا چاہتے تھے مگر بیٹے کو کوئی پسند ہی نہ آتی تھی اب اس نے پسند کی تو ابا جی ان کے اور بیٹے کے پیار میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ بچی کو وہ لوگ کہہ رہے تھے سمجھا بجھا کر راضی کر لیں گے۔ مگر ابا جی کا کیا کروں۔ بہرحال اب مجھے ابا جی کی صہت کو دیکھتے ہوئے اس رشتے کے لئے تمھارے پاس آنا پڑے گا تم میری مجبوری سمجھتے ہوئے مجھے معاف کر دینا پلیز۔


بہار نے کہا آپا شمیم آپ مجھ سے سوری نہ بولیں یہ سب قسمت کے کھیل ہیں۔ اگر ارشاد کا ساتھ میری قسمت میں لکھا ہوتا تو پہلے ہی کوئی رکاوٹ نہ آتی۔ آپ جب بھی آہیں اب میں ارشاد کو داماد ہی سمجھوں گی۔


شمیم نے کہا کہ تم ارشاد نہ سہی کسی اور اچھے انسان سے شادی کر لینا دنیا میں صرف ارشاد ہی اچھا انسان نہیں ہے۔


بہار نے سرد آہ بھر کر کہا کہ ارشاد کو تو میں جانتی تھی کسی اور سے تو اب سوال ہی نہیں اٹھتا۔ زندگی کا ایک ہی تجربہ کافی ہے۔ اچھا میں رباب کو لے کر ابا جی کو دیکھنے ہاسپٹل آوں گی ابھی وہ فرینڈز کے ساتھ اپنی شادی کی شاپنگ میں لگی ہوئی ہے۔ بہت معصوم ہے میری بیٹی خدا اس کا نصیب اچھا فرمائے آمین ثم آمین۔ شمیم نے کہا۔


بہار فون بند کر کے آئی تو گھر کے بکھرے کام نبٹانے لگی۔ رباب کو فون کیا کہ جلدی آو ہاسپٹل جانا ہے۔ ارشاد کے ابا جی کو دیکھنے۔


رباب کی فرینڈز کے پاس گاڑی تھی اس نے کہا کہ آنٹی تیار رہیں ہم بھی آپ کے ساتھ جاہیں گے اور آپ دونوں کو گھر ڈراپ بھی کر دیں گے۔


بہار لوگ ہاسپٹل پہنچے تو آپا شمیم اور ان کی جٹھانی اور علی وہاں موجود تھے۔ علی تو رباب کو دیکھ کر کھل گیا جبکہ بہار نے علی کو دیکھا جس نے بڑے مودبانہ انداز میں اسے سلام کیا تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ امریکہ میں پلا بڑھا ہے بڑی روانی سے اردو بول رہا تھا۔ آگے ہو ہو کر کام کر رہا تھا۔ بہار کو وہ کافی اچھا لگا اس کی ماں بھی بہار کو بہت عزت دے رہی تھی۔


ارشاد کے ابو نے جب بہار کو دیکھا تو کافی حیران ہوے ابھی تو اس کے سر کے بال بھی کالے تھے بہت گریس فل لگ رہی تھی بڑے اعتماد اور سلجھے طریقے سے بات چیت کر رہی تھی لباس بھی قیمتی لگ رہا تھا۔ وہ کسی بیگم سے کم نہ لگ رہی تھی۔ بیٹھنے کا انداز بھی پر اعتماد تھا۔


ارشاد کے ابو کے زہن میں وہی پرانا ان کے گھر کا نقشہ گھوم گیا۔ جب وہ ان کے گندے سے محلے میں انٹر ہوئے اور گندی نالیاں اور جابجا گند پڑا دیکھ کر وہ کافی مایوس ہوے۔ ان کے گھر پہنچے تو گھر کی حالت غربت کا پتا دے رہی تھی جس صوفے پر بیٹھے تھے اس پر چادر ڈلی تھی چادر زرا سی کھسکی تو نیچے سے پھٹا ہوا تھا۔ ان کو جن برتنوں میں چاے پانی دیا گیا وہ برتن بھی سستے ترین تھے۔ ارشاد کے ابو بہار کی امی کی جاہلانہ گفتگو اور انداز سے الجھن محسوس کر رہے تھے اس کے ابو ایک ملازم کی طرح ڈھیلے ڈھیلے دب کر بات کر رہے تھے اور ارشاد کے والد کو سر سر کہہ کر پکار رہے تھے۔ وہ بیٹے کی خوشی کے آ گے مجبور ہو گئے تھے جس نے کھبی شادی نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ وہ ادھر ہاں تو کر آئے مگر یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ خاندان والے کیا کہیں گے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے کیا سمدھی ڈھونڈے ہیں۔ بہار بھی بڑی سی سوتی چادر لپیٹے تھوڑی دیر بیٹھی رہی۔ اس کا حلیہ بھی مایوں جیسا تھا وہ سوچ رہے تھے کہ ان کے گھر کی ملازمیں بھی اس سے بہتر حلیے میں رہتی ہیں۔ وہ تو خاندان کا ہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے۔ بہار کے ابو ارشاد کے والد کو بہت غیرت مند لگے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ شادی سے پہلے ان کی حالت سدھار بھی لیتے مگر بہار کے باپ کو جب ارشاد کے والد نے کہا کہ برات کا سارا خرچہ وہ اٹھا لیں گے تو وہ سخت برا مناتے ہوئے بولا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا اپنی حیثیت کے مطابق برات میں کم لوگوں کو بلا لوں گا مگر خرچہ خود کروں گا اور پندرہ بیس بندوں سے زیادہ نہیں افورڈ کر سکتا۔ وہ سوچ میں پڑ گئے تھے کہ وہ کس کو بلائیں گے اور کس کو منع کریں گے۔ بہت سوچ وبچار کے بعد انہوں نے اس رشتے سے جان چھڑانے کی سوچی اور ایسا سوچا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔


اتفاق سے پرانا دوست مل گیا جو گاڑیوں کے شوروم میں ملازم تھا یہ گاڑی دیکھنے گئے تو اس کا مالک ملک سے باہر تھا اور اس پر بھروسہ کرتا تھا اور اس کے حوالے شوروم کر کے چلا گیا تھا اپنی فیملی کو لے کر اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے اس کے سپرد گھر کر گیا تھا اور ملازموں کو ہدایت کر گیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ اس کا حکم مانیں گے۔ وہ اکیلا اس کوٹھی میں رہتا تھا بیوی اور بیٹی الگ کراے کے ایک غریب ایریا میں رہتے تھے وہ ارشاد کو اس شوروم کا مالک بتانے لگا اور اور مالک کے سوٹ بوٹ روز پہننے لگا تھا اس کا لباس اور انداز دیکھ کر ارشاد کے ابو اس سے متاثر ہو گئے وہ بہت تیز اور چرب زبان تھا۔ اس نے اسے مالک کے گھر لے جا کر چائے پلائ اور اسے اپنا گھر بتایا۔ اور جب پتا چلا کہ اس کا ایک ہی بیٹا ہے اور ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی صرف رشتہ ہوا ہے وہ بھی ارشاد کے والد کی مرضی کے بغیر۔ تو اس نے کہا کہ اسے کینسر ہے اور اس کی بیوی فوت ہو چکی ہے اس کے پاوں پکڑ کر رونے لگا کہ میری بیٹی کو اپنا لو بعد میں بیٹے کی پسند سے اس کی دوسری شادی کروا دینا میری بیٹی بہت سمجھدار اور صبر والی ہے میں اسے سب سمجھا دوں گا تم بھی امیر ہو میں بھی تمھارے ہم پلہ اور ہماری کاسٹ بھی ایک ہے۔ اس نے بہانے سے کاسٹ پوچھ لی تھی اور اپنی بھی وہی بتا دی جانتا تھا کہ کچھ لوگ اپنی کاسٹ کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس نے مکھن لگاتے ہوئے کہا کہ یہ سب مال و دولت اس کے بعد اس کی بیٹی کا ہے۔ بہت سے لالچی لوگ اس کا رشتہ مانگ رہے ہیں مگر تم بے شک اسے نوکرانی بنا کر بھی رکھو گے تو وہ اف تک نہ کرے گی ہم نے اس کی ایسی تربیت کی ہے بس جلدی سے سادگی سے نکاح پڑھا لو میں مرنے والا ہوں بس بیٹی کو مرنے سے پہلے محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر جانا چاہتا ہوں۔ جب اس کوٹھی میں نکاح ہوا تو جلد اس کی حقیقت کھل گئ وہ گھپلے کرنے لگا تھا مالک اچانک آ گیا اسے نکال دیا اور اس کی بیوی صدمے سے مر گئی۔ ارشاد ضد میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی جب سنا بہار کی شادی ہو گئی ہے تو اپنی شادی دھوم دھام سے کروائی۔ بولا اس میں لڑکی کا کیا قصور۔ اس آدمی کو سچ مچ کا کینسر ہو گیا اور وہ معافیاں مانگتا مر گیا۔


ارشاد کے باپ نے دیکھا کہ ارشاد روم میں داخل ہوا اور بہار پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ۔ رباب کی دوست اسے انکل کہہ کر مخاطب کرنے لگیں رباب خاموش بیٹھی رہی۔


ایک لمحے کے لیے اسے بیٹے کا درد دل میں محسوس ہوا مگر دوسرے ہی لمحے اسے وارث کا لالچ آ گیا اور وہ سوچنے لگا کہ اگر اس کی شادی بہار سے ہو جاتی تو وہ وارث نہ دے پاتی مجھے لگتا ہے کہ وہ بانجھ ہے کیونکہ اس کی ہدایت سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اور ہدایت میں کوئی نقص نہیں تھا کیونکہ اس کی ایک بیٹی تھی۔اب میں کوئی اس سے دشمنی تو نہیں کر رہا مستقبل میں اس کا بھلا ہی سوچ رہا ہوں کہ اس کو بھی بیٹا ملے جیسے مجھے اتنا اچھا اور فرمانبردار بیٹا ملا ہے اسے بھی نصیب ہو۔ بہار سے اسے کیا ملے گا جب بوڑھا ہو گا تو اس وقت جب دوسروں کے بچے دیکھے گا تو پھر پچھتائے گا۔ سامنے بیٹھی رباب کو دیکھ کر سوچنے لگا اگر اس کی اس پیاری سی بچی سے شادی کرواتا ہوں تو جب وہ اس کو وارث دے گی تو یہ سب کچھ بھول جاے گا اور اسے یقین آ جاے گا کہ میرا فیصلہ درست تھا۔ اگر میں زندہ رہا تو اس کو ضرور یاد دلاوں گا کہ میں اس کی خوشیوں کا دشمن نہ تھا بلکہ دور کی سوچ رہا تھا۔ یہ سوچتے ہی اس نے رباب کو پاس بلا کر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے بہت خوش ہے جس نے ہاں بول کر اس کی زندگی اس کے گھر میں خوشیاں بکھیر دی ہیں۔ وہ اس کو بہت خوش رکھے گا کیونکہ اس کا بیٹا بہت نیک دل ہے جو اپنی انپڑھ بیوی کی خوشیوں کا خیال رکھتا تھا تو جب اسے تمھارے جیسی پیاری اور پڑھی لکھی بیوی ملے گی تو سوچو وہ تمھارا کتنا خیال کرے گا۔ تم دل کھول کر اپنی پسند کی شاپنگ کرو میں سب خرچہ خود کروں گا تمھاری بیوہ ماں پر ایک روپے کا بھی بوجھ نہیں ڈالوں گا اور بعد میں تم ماں کو بھی پاس رکھ لینا وہ اکیلی رہ جائے گی۔ اگر کوئی مناسب رشتہ لگا تو اس کی شادی بھی کروا دیں گے۔ ابھی وہ جوان ہے۔


ارشاد کے باپ کو گھر لے جایا گیا اس نے گھر آتے ہی جلد شادی کا اعلان کر دیا ساتھ گھر وہ رباب اور اس کی ماں کو بھی لے آیا تھا تاکہ شادی کی تفصیلی بات چیت کر سکے اس نے کہا کہ ہماری سمدن بہار صاحبہ کو بلاو ساتھ میں شمیم بھی آئے۔


بہار بہت اعتماد سے بیٹھ کر ان سے شادی کی تقریب اور انتظامات کی باتیں کرتی رہی۔


شمیم دکھی دل سے ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔ اور بہار ایسی لگ رہی تھی جیسے وہ واقعی اس کی ماں ہے۔


ارشاد کے والد بہار کی سمجھداری سے دل میں متاثر ہوئے۔ اس نے غیرت دکھائی اور بولی کہ وہ شادی میں آپ کی مدد لے کر اپنی بیٹی کے مان سمان کو نہیں گرا سکتی۔ جس سے اس کی نظریں سسرال میں ہمیشہ نیچی رہیں۔ اگر آپ کو میری غربت کی حالت میں بیٹی قبول ہے تو میں شادی کے بارے میں مزید بات کروں۔ میں نے اس کو اپنے میکے کے جوڑے اور زیور میں رخصت کرنا ہے اور اس کے بیڈ روم کے لیے فرنیچر بھی دینا ہے جو میرا بجٹ ہو گا بعد میں آپ بےشک اسے چینج کرتے رہیں۔اور زیور کا کماز کم ایک یا دو سیٹ اس کو دوں گی۔ ولیمے پر آپ اسے جو چاہے قیمتی سوٹ سستا سوٹ جو آپ کی مرضی ہو کریں۔


ارشاد کے باپ نے اس سے نکاح میں کچھ لکھوانے کی بات پوچھی تو اس نے کہا کہ اگر میں کروڑوں لکھوا بھی لوں تو وہ اچھی قسمت کی گارنٹی نہیں ہے۔ میں تو شرعی حق مہر کی قاہل ہوں۔ ویسے میں رباب سے بھی اس بارے میں بات کرنا چاہوں گی مجھے امید ہے کہ وہ میری ہم خیال ہی ہو گی مگر میں پھر بھی ڈرتی ہوں کہ اس کو یہ گلہ نہ ہو کہ اس معاملے میں میں نے اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔ رباب کو بلایا گیا اور ساری باتیں اس کے گوش گزار کی گئی تو اس نے بھی یہی جواب دیا کہ جو میری ماما فیصلہ کریں مجھے ان کی کسی بات سے کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ کیونکہ دنیا میں میری سب سے زیادہ بھلا سوچنے والی صرف میری ماں کے علاوہ کوئی نہیں۔ مجھے ان کی تربیت اور قربت پر فخر ہے کہ یہ میری ماں ہیں۔


بہار نے گیلی آنکھوں سے اٹھ کر اسے گلے لگا کر پیار کیا اور کہا کہ تم نے مجھے عزت اور مان دے کر میری بیٹی ہونے کا ثبوت دے دیا ہے خوش رہو میری بچی اللہ تعالیٰ تمھاری قسمت اچھی کرے وہ اسے دعائیں دینے لگی شمیم بھی آنسو صاف کرنے لگی۔


ارشاد کےباپ نے دل میں سوچا ہیرا ہے یہ عورت۔ آخر ان کے سمجھدار بیٹے نے ویسے ہی نہیں اسے چنا تھا۔کاش میں اس کی شادی اس سے کروا سکتا اور یہ مجبوریاں نہ ہوتیں۔


بہار نے کہا کہ بارات پر آپ جتنے لوگ خوشی سے لانا چاہتے ہیں لا سکتے ہیں مگر آپ جلد لسٹ بنا کر دے دینا۔ اور نکاح اگر آپ چند دن پہلے کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ مہندی میں اپنے گھر میں ہی کروں گی اور زیادہ لوگوں کو نہیں بلاوں گی۔ آپ کی فیملی شامل ہو سکتی ہے۔ اور میری خالہ سے شمیم آپا کو آ کر رشتہ مانگنا پڑے گا صرف ان کو عزت دینے کے لیے۔ باقی باتیں میں ان کو جو طے ہو چکی ہیں میں انہیں طریقے سے سمجھا دوں گی اور ان کے بچوں کو بھی انواہیٹ کروں گی اور آپ لوگوں کو بھی ان کو اسپیشل اپنی طرف سے انواہیٹ کرنا پڑے گا ان کے بیٹوں کو فون کر کے بھی جسٹ ایک فارمیلٹی کے لئے رشتہ مانگنا پڑے گا۔ میری اس کے علاوہ کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔


شمیم بولی ہر بات تم نے مناسب اور جاہز کی ہے میرے خیال میں ابا جی بھی میری بات سے متفق ہیں کیوں ابا جی میں نے ٹھیک کہا نا۔


ابا جی بولے مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میرے بیٹے کو اتنے غیرت مند اور سلجھے خیالات رکھنے واے لوگ ملے ہیں۔ وہ بہار کو دعا دیتے ہوئے بولے خدا تمھیں خوش رکھے تم بہت اعلیٰ ضرف عورت ہو۔ میں تمھاری ہر بات سے ایگری کرتا ہوں۔


رات کے ڈنر کے بعد علی ان کو گھر چھوڑنے آیا۔ علی اداس اداس تھا بہت دکھی نظروں سے وہ رباب کو دیکھ رہا تھا اس نے بہار سے کہا کہ آنٹی آپ کو کھبی بھی کسی ہیلپ کی ضرورت ہو تو مجھے پلیز بیٹا سمجھ کر ضرور بتائیے گا۔ بہار اس کو دعا دیتے ہوئے بولی خوش رہو بیٹا ضرور۔ کیوں نہیں۔ پھر اس نے بہار کو اپنا نمبر دیا۔ بہار کو ویسے بھی یہ لڑکا بہت پسند آیا تھا مگر رباب کی ضد کے آگے مجبور تھی۔ اس نے اسے زبردستی گھر کے اندر بلایا اور الاونج میں بٹھا کر رباب سے اس کے لئے جوس لانے کا بولا۔


رباب جوس لائ تو وہ بڑے دکھی انداز سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے بہار کے دل میں خیال آیا کہ یہ لڑکا اس سے بہت پیار کرتا ہے کیوں نہ ایک بار رباب کو سمجھا کر دیکھے۔


علی کے جانے کے بعد بہار نے علی کے بارے میں کچھ سمجھانا چاہا تو رباب چیخ کر بولی ماما اس چھچھورے کا نام نہ لیں میرے سامنے۔ میرے آگے پیچھے پھرتا رہتا ہے ہر وقت۔اور اب سب کچھ طے ہو چکا ہے تو پھر اس کی بات کرنا فضول ہے نا۔


بہار مایوس ہو گئی۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا ہی بھولیں شکریہ




Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.