بچھڑے پیار کی آمد 13
Episode 13
رباب کمرے میں بیٹھی فیس بک دیکھ رہی تھی کہ علی کی فرینڈ ریکویسٹ دیکھی جو کافی دنوں سے پینڈنگ پڑی تھی اوکے کر دی۔
اسی وقت علی کا فون آ گیا اور بولا یہ آج پھتر کیسے پگھلا۔
رباب نے تھوڑی شرمندگی سے کہا کہ دراصل تم میری ماما کے ساتھ بہت اچھے ہو تم نے ان کو برگر کھلایا۔۔۔
علی ٹہرو ٹہرو اگر یہ برگر کی وجہ سے تھا تو یقین مانو میں انہیں برگر کھلا کھلا کر ان کا پیٹ خراب کرا دوں گا میں ابھی برگر آرڈر کرتا ہوں اور فون بند کر کے اس نے ان کے ایڈریس پر تین برگر آرڈر کر دیے۔
جب برگر والا آیا تو علی باہر کھڑا تھا پے کر کے بولا ادھر بیل کر کے دے دو خود اوٹ میں کھڑا ہو گیا گاڑی بھی اوٹ میں پارک کی۔
رباب نے ڈرتے ڈرتے ماں کو سب بتا دیا اور وضاحت دی کہ اس لیے اس کی فرینڈ ریکویسٹ اوکے کی کہ۔۔۔
بہار بات کاٹتے ہوئے بولی اچھا اچھا تم بےوقوف تو نمبر ون ہو وہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولی اب وہ ٹلے گا نہیں خاہ مخواہ میں اب وہ خرچہ کرے گا۔
رباب روتی صورت بنا کر بولی سوری ماما۔ اسے منع کروں گی کہ۔۔۔ اتنے میں ڈور بیل بجی۔
بہار دروازے پر گئی تو برگر والا کھڑا تھا اس نے کہا کہ یہ آپ کا آرڈر ہے۔
بہار بولی مگر ہم نے تو کوئی آرڈر نہیں دیا تو وہ بولا جی علی صاحب نے دیا ہے۔
بہار بولی اچھا اس نے شاپر پکڑایا تو بہار بولی میں ابھی بل دیتی ہوں کتنا بل ہے۔؟
اس نے کہا کہ بل ادا کر دیا ہے۔
بہار اچھا کہہ کر جانے لگی تو علی نے سامنے آ کر سلام کیا تو بہار نے اس کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر اسے پیار سے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ سب کیا ہے اس نے شاپر کی طرف اشارہ کیا۔؟
علی سر کھجاتے ہوئے سوری بولا۔
بہار نے کہا یہ اب لاسٹ بار ہونا چاہیے ورنہ پھر کھبی ایسی بےوقوفی کی تو اچھا نہیں ہوگا۔
علی کان پکڑتے ہوئے بولا کھبی نہیں۔
اچھا آنٹی جی میں اب چلتا ہوں۔
بہار نے کہا اندر آو وہ شرماتا سا اندر آ گیا۔
رباب نے برگر دیکھے اور اسے ڈانٹنے لگی کہ آہندہ کھبی دوبارہ لاے تو پھر۔۔۔
وہ اسے چپ کرواتے ہوئے بولا تم تو چپ کرو مجھے آنٹی سے ڈانٹ پڑ چکی ہے۔
رباب ماں کو دیکھتے ہوئے جو برگر پلیٹوں میں نکال رہی تھی بولی ماما ایک تو اس بےچارے نے اتنا خرچہ اوپر سے آپ نے اسے ڈانٹ دیا۔ آج ماما ویسے بھی انڈوں کا آملیٹ بنانے لگی تھی کہ سالن ختم تھا اور خالہ نانو کو بھوک لگی تھی اور جلدی تھی۔
بہار نے کہا اتنے کیوں لے آئے۔ وہ بولا ایک ایک سب کا ہے۔ ملازمہ تو شاید لمبی چھٹی پر گئی ہے ناں۔
رباب بےزاری سے بولی گاوں میں اس کے شادی ہے۔ ماما بےچاری کو اتنا کام کرنا پڑتا ہے۔
علی نے کہا تو تم کروا دیا کرو نا سارا دن موبائل پر بزی رہتی ہو۔
رباب بولی اچھا میں اب کروایا کروں گی۔ ماما ویسے کہتی ہیں کہ ہر کام سیکھ لو۔
علی بولا تو ٹھیک کہتی ہیں شاباش سارا کچھ پکانا سیکھ لو جب گھر میں ایک زبردست ٹیچر موجود ہیں تو فائدہ اٹھا لو۔
رباب بولی مجھے بھی اب کچھ شوق ہونے لگا ہے۔
بہار نانی کو برگر دینے گئ تو وہ کچھ حیران سی ہوگئی تو رباب نے کہا نانو جی بہت ٹیسٹی ہے اور مہنگا بھی تو وہ شوق سے کھانے اور تعریفیں کرنے لگیں۔
بہار نے لا کر ایک علی کو دیا تو وہ جلدی سے بولا نو نو آنٹی جی یہ آپ کے لیے ہے۔ میرے نصیب میں تو وہ کل کی حلیم تھی جو بچی ہوئی تھی ماما نے اس کے ساتھ کھانا کھلا دیا ہے۔
بہار نے کہا میں ویسے بھی ایسی چیزیں شوق سے نہیں کھاتی مگر رباب اور علی کے اصرار پر اسے کھانا پڑا۔
رباب علی کو برگر کھاتے ہوئے بتانے لگی کہ ماما بس ہر وقت قربانیاں ہی دیتی رہتی ہیں۔ چیز کم ہو تو کہہ دیتی ہیں مجھے بھوک نہیں یا پسند نہیں۔
علی نے کہا خالہ کے بیٹے شبیر ماموں وغیرہ کب آ رہے ہیں۔ رباب برگر کھاتے ہوئے اوپر سے کوک پیتے ہوئے بولی میری شادی کے قریب۔ انہوں نے ماما کو کہہ دیا ہے کہ آپ لوگ تیاریاں شروع کریں ہم لوگ جلد آنے کی کوشش کریں گے۔ وہ بےدھیانی میں کھاتے ہوئے بولتی گئ اور علی کے چہرے پر نظر پڑی تو اس کے چہرے پر غم کی پرچھائیوں کو رباب محسوس کیا اور چونک گئ۔
نانو واش روم گئ تو تھوڑی دیر بعد ان کی چیخ کی آواز آئی۔ سب بھاگے تو بہار نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو اندر سے لاک تھا اور اندر سے نانو کے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھی۔
بہار نے پریشانی سے کہا آپ کو کہا بھی ہے کہ آپ لاک نہ لگایا کریں۔ اور اس کی تو چابی بھی نہیں ہے۔ علی سے بولی اس لاک کو توڑ دو۔
علی بولا میں جلدی سے گاڑی سے ٹول باکس لے کر آتا ہوں۔ اور علی ساتھ ڈاکٹر کو بھی فون کر کے بلانے لگا اس نے ارشاد ماموں کو بھی فون کر دیا۔
علی نے بہت مشکل سے لاک کھولنے کی اور اسے توڑنے کی کوشش کی جو پرانا ہونے کی وجہ سے زنگ آلود ہو گیا تھا اور مشکل پیش آ رہی تھی۔ بہار اور رباب روتے ہوئے نانو کو تسلیاں دے رہی تھی اور ان کے کراہنے کی آواز بھی مدہم ہوتی جا رہی تھی۔ بہار نے لاہیو کال شبیر بھائی خالہ کے بیٹے کو بھی کر دی وہ بھی پریشان ہوگئے اور بولے پلیز کسی پلمبر کو بلا لو جو دروازہ کھول دے۔ بہار تسلیاں دیتی ہوئی بولی فکر نہ کریں بس کھلنے والا ہے۔
خالہ کی آواز بند ہو چکی تھی ارشاد ڈاکٹر کو لے آیا تھا بہار تیزی سے دروازہ کھولنے گئ سامنے ارشاد ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کھڑا تھا۔
بہار نے دونوں کو اندر آنے کا کہا۔ دروازہ کھل گیا۔ ارشاد نے بہار کو پہلے اندر جانے کا بولا وہ تیزی سے اندر گئ اور پھر ان کو اندر بلایا خالہ کو زور زور سے آوازیں دیں وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ ارشاد اور علی نے انہیں بیڈ پر لٹایا ڈاکٹر نے فرسٹ ایڈ دی اور انہیں فوراً ہاسپٹل پہنچانے کا بولا۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.