Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 16

Episode 16

شبیر نے ارشاد سے کہا کہ وہ رباب کی شادی علی سے کروا دیں تو مناسب ہے۔ اور ہماری بہن بہار بھی ابھی جوان ہے اور اس کے لیے بھی موزوں رشتہ درکار ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو رباب کی جگہ بہار کا رشتہ لے لیں تو بہتر رہے گا۔


ارشاد نے اسے اپنی اور بہار کی پرانی ساری داستان سنا دی۔


شبیر نے حیرت سے کہا کمال ہے آپ کا بندر والا لاڈ ہے کہ مالک کے ناک پر مکھی بیٹھی اور اس نے پھتر مار دیا۔ آپ ان کے حکم کے تابع ہو کر چار زندگیوں کو برباد کر رہے ہیں۔ علی نے مجھے اپنی پسند کا اظہار کیا ہے اور مدد کی درخواست کی ہے۔


ارشاد نے کہا کہ میں کیا کروں ابا جی ضدی ہیں۔


شبیر نے زرا غصے سے کہا کہ ان کی ضد کے آگے ہم سب کی زندگیوں کو تو داو پر نہیں لگا سکتے ہیں۔


ارشاد کے والد نے شبیر اور بہار کے ماموں زاد کو شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے بلایا۔


علی کے والد جو زرا بڑے تھے ارشاد سے اس لئے ان سے ارشاد فری ہو کر بات نہیں کرتا تھا اس لیے وہ اپنی بڑی بہن آپا شمیم سے ہر دل کی بات کرتا تھا اس لیے شوہر بھی ان بہن بھائی کے درمیان نہیں آتا تھا۔ شمیم نے آخر کار بیٹے کی دیوانگی کو دیکھتے ہوئے شوہر کو سب بتا دیا۔


شوہر حیران ہوا اور اس سے قدرے برہم بھی کہ جب بات اتنی اہم تھی ہمارے بیٹے کی خوشیوں کا سوال تھا تو تم نے اس کی پرداداری کیوں کی۔ محض باپ کی بے جا ضد پوری کرنے کے لیے۔


شمیم نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ بچی بھی تو ارشاد کی طرف ہی راضی ہے۔ اگر اس کا بھی رجہان ہوتا تو میں آپ کو بتا دیتی۔ مگر۔۔۔۔


شوہر نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ تو ناسمجھ بچی ہے۔ وقتی طور پر اسے ارشاد کی پرسنیلٹی میں کشش محسوس ہوئی ہو گی مگر اب مجھے نہیں لگتا کہ وہ علی کے لئے انکار کرے اب مجھے اس کا دھیان علی کی طرف محسوس ہوتا ہے دونوں کی دوستی سے مجھے لگا۔ بہرحال اسے منایا جا سکتا ہے وہ مشکل نہیں ہے مگر انکل کو توبہ۔میں اس صورت حال کے بارے میں ارشاد سے بات کرتا ہوں اور اس کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اب ارشاد کو بھی اس بے جا ضد میں پسنے نہیں دوں گا۔


شمیم کے شوہر نے ارشاد سے جب بات کی تو وہ روتے ہوئے بولا زندگی میں نے ایک جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے۔ بہار کے غم کو بھلانے کے لئے اپنی ٹوٹل ناپسندیدہ بیوی جو جھوٹے اور لالچی لوگ تھے بیٹی بھی ساتھ شامل تھی میں نے اسے معاف کرتے ہوئے اس کے ساتھ نبھا کیا اس کے حقوق پورے کیے۔ اپنی ابنارمل اولاد پر بھی رب کا شکر ادا کیا اور صبر کیا۔ اب مجھ میں اس بچی کی زندگی برباد کرنے کی سکت نہیں ہے۔ مگر میں اب باپ سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف جانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ان کو کاش کوئی منا سکے جی چاہتا ہے خود کشی کر لوں اگر حرام نہ ہوتی تو کر چکا ہوتا۔ آپ کچھ کر سکتے ہیں تو کریں میں اب بہار کو دوبارہ نہیں کھو سکتا۔


شمیم کے شوہر نے کہا کہ تم حوصلہ رکھو میں اب تمھارے اور اپنے بیٹے کی خوشیوں کو پامال نہیں ہونے دوں گا۔


ارشاد نے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔


شبیر اور بہار کے ماموں زاد سے شمیم کے شوہر نے ملاقات کی تینوں ایک کیفے میں ملے۔ پھر انہوں نے ایک پلان بنایا اور اس پر متفق ہو گئے۔


ارشاد کے والد صاحب کے پاس شادی کی بات کرنے گئے اور شادی کی تاریخ مقرر کر دی۔ اور دھوم دھام سے شادی کی تیاریاں شروع کر دیں۔


شبیر اور ہدایت کے کزن کے ساتھ مل کر شادی کا سارا خرچہ اور بجٹ بنا کر دونوں نے آپس میں صلاح و مشورے سے آدھا آدھا خرچہ اپنے زمے لے لیا۔ اور تیاریاں شروع کر دیں۔


مامی کی خواہش تھی کہ گھر اتنا بڑا ہے تو کیوں نا ہم اپنے گھر میں ہی شادی رکھ لیں رونق بھی رہے گی ضروری نہیں کہ جب بڑا گھر موجود ہو تو ہم ہوٹل کی خواری اٹھائیں۔


سب نے اس تجویز کو سراہا اور کہا کہ ہم گھر کو شاندار طریقے سے سجاہیں گے اور ساتھ میں شبیر کی بیٹی کی شادی بھی کر دیں گے تاکہ وہ فرض بھی ادا ہو جائے۔


مامی نے پوتی کی شادی کی تجویز کو بھی پسند کیا۔


تینوں گھرانوں نے مل کر سب شادی کے پلان کو ترتیب دیا اور آپس میں تعاون اور مینیو بھی ڈیساہیڈ کر لیا۔


ارشاد کے ابو اس بات سے خوشی سے نحال ہونے لگے کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق سر انجام پا نے لگا ہے۔


بہار اپنے رب کا بہت شکر ادا کرنے لگی کہ اس کی بیٹی عزت سے اپنے سسرال جائے گی ورنہ وہ ایسا دھوم دھڑکہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔


کسی وقت اسے ارشاد کی بات یاد آتے ہی خوف محسوس ہونے لگتا کہ وہ اس سے شادی کے لیے بھر پور کوشش کرے گا اگر خدانخواستہ ناکام رہا اور رباب اس کی قسمت میں لکھی ہوئی تو اس کو کوئی دکھ نہیں دے گا اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔ بہار کو اس بات کا اطمینان تھا کہ وہ رباب سے کھبی زیادتی نہیں کرے گا مگر اب کسی وقت اس کا دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ رباب ڈیلی علی سے رات گئے تک ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے کہیں وہ اس کی طرف ماہل تو نہیں ہے۔ یہ نہ ہو وہ پچھتا رہی ہو۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو وہ اس کی زندگی ایک بڑے شخص سے شادی کرنے سے بچا لے گی چاہے نکاح سے ایک منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس وقت وہ اس کی خواہش کے آگے مجبور ہے اور اس نے دیکھا اب وہ کافی سمجھدار ہوتی جا رہی ہے یہ بات مامی نے بھی نوٹ کی۔


مامی پچھتا رہی تھی کہ اگر وہ اس وقت ہدایت کو گھر سے نہ نکالتی تو شاید آج یہ پیاری اور پرخلوص لڑکی اس کے پوتے کی بہو بن سکتی۔ مگر اپنے حسد اور جلد بازی میں اس نے دو ہیرے کھو دیے۔ اس کو پچھتاوا ہوتا کہ وہ بہار کے بیوہ ہونے پر اپنے بڑے بیٹے کی شادی اس سے کروا دیتی جو اس وقت کنوارہ تھا مگر بہار سے عمر میں بڑا تھا مگر اس وقت تو وہ ایسا سوچنا بھی گناہ سمجھتی تھی جو ایک بیوہ کی اپنے کنوارے بیٹے سے کھبی نہ کرتی۔ حالانکہ اسے بہار کی نیچر اس کی شوہر پرستی جو جوان ہونے کے باوجود اپنی سوتیلی بیٹی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور اسے سگی ماں جیسا پیار کرتی ہے بہت متاثر کرتی تھی۔


مگر اب گھر لا کر اس نے اپنے ظمیر کو مطمئن کرنے اور اپنے سابقہ گناہوں کی تلافی کرنے کا ارادہ کیا تھا کچھ ان سے انسیت بھی محسوس ہوتی تھی اسے۔


نکاح شادی سے پہلے ہونا قرار پایا اور طے یہ پایا کہ کارڈز کے جھنجھٹ میں نہیں پڑیں گے سب کو ٹیلیفون پر دعوت دیں گے تاکہ وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع نہ ہو۔ جو تعاون کرنے اور سمجھدار اور مخلص لوگ ہوں گے وہ ان کی شادی کی مصروفیات کو سمجھتے ہوئے ماہنڈ نہیں کریں گے۔ کیونکہ کارڈز میں بھی مقابلہ بازی شروع ہو جاتی ہے کہ مہنگے کارڈز چھپوانے سے زیادہ عزت بنے گی خوب واہ واہ ہو گی۔ جبکہ مہنگے کارڈز بھی چھپوا کر صرف ایک نظر دیکھ کر اگر بہت اچھا ہو تو تعریف کر کے بعد میں وہ گھر میں رل رل کر آخر کوڑے کی زینت بنتا ہے۔ اس پر اللہ کا نام لکھوا کر پھر بےادبی بھی ہو سکتی ہے نعوذبااللہ۔


علی اپنے والدین کی شادی کی تیاریوں میں مدد کر رہا تھا ساتھ ساتھ پریشان بھی رہتا تھا ماں اسے تسلیاں دیتی تھی۔


۔ بہار کھبی اداس ہو کر سوچتی اس دن ارشاد کے ساتھ باہر جا کر اس کی پیار بھری سنگت میں اسے کافی دلاسہ مل گیا تھا اس نے کوئی نازیبا بات یا حرکت نہیں کی تھی۔ اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اور کہتا تھا باقی سب قسمت کے کھیل ہیں میں جو بھی تمھارے علاوہ بیوی بنے گی اس کو دل تو نہ دے سکوں گا مگر اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتوں گا اس بات کی تم تسلی رکھو۔بہار کھبی سوچتی کہ رباب کو علی دیوانوں کی طرح چاہتا ہے دونوں کی جوڑی بھی پیاری لگے۔ مگر رباب کو کون سمجھاے۔ کیا اس سے ایک بار پوچھ کر دیکھ لوں ہو سکتا ہے وہ پچھتا رہی ہو کیونکہ مامی بھی اکثر یہ کہتی ہیں کہ علی اس کے لئے زیادہ مناسب رہے گا۔


علی رباب کو اصرار کرنے لگا کہ تم شادی سے انکار کر دو ارشاد ماموں کے لیے جوان رشتوں کی کمی نہیں۔ مگر وہ اس کی ہر بات مانتی سنتی مگر اس ٹاپک پر نہ آتی۔ پھر رباب نے اسے ورننگ دے دی کہ اگر دوبارہ اس سلسلے میں بات کی تو وہ تم سے بات کرنا چھوڑ دے گی۔ وہ اداس اداس رہنے لگی کافی سنجیدہ مزاج ہونے لگی اس کی فرینڈز نے اب اسے سمجھانا چھوڑ دیا کیونکہ انہیں بھی وہ دھمکی دے چکی تھی۔ انہوں نے اداسی سے ہی اس کی شادی کی تیاریوں میں اس کا ساتھ دینے لگیں۔


رباب اب کسی چیز میں دلچسپی نہ لے رہی تھی بازار جا کر بھی کھوئ کھوئی سی رہتی۔


دوستوں نے تنگ آکر اگلوانے کی کوشش کی کیونکہ بہار بھی اسے پریشان دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی۔ اس نے اس کی فرینڈز سے بات کرنے اور وجہ جاننے کے لیے کہا۔


جب فرینڈز نے کہا کہ کہیں تم اب اپنے فیصلے پر پشیمان تو نہیں ہو پچھتا تو نہیں رہی علی سے پیار تو نہیں ہو گیا کیا۔ ؟


رباب سنتے ہی غصے سے پھٹ پڑی اور ان کے آگے صاف مکرتے ہوئے بولی اسے کوئی پیار ویار نہیں ہوا ہے اور نہ ہی وہ اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہے اور آئندہ کھبی کسی نے اس بارے میں بات کی تو میں کچھ کر بیٹھوں گی۔ تم لوگ ایسی باتیں کر کے کیوں میری ماں کو پریشان کرتی ہو۔


فرینڈز حیرت سے اس کے غصے والے لہجے کو دیکھنے لگیں اور خاموش ہو گئیں۔


بہار نے اس کے رویے کی ان سے معافی مانگی تو وہ روتے ہوئے بولیں آنٹی جی ہم نے ماہنڈ نہیں کیا وہ ہماری بہن ہے۔ مگر ہم اس کی اس بےوقوفی پر کڑھتی ہیں جو علی جیسے انسان کو کھو رہی ہے۔ ارشاد انکل تو کھبی اس سے پیار بھی نہیں کریں گے وہ تو ایک روبوٹ کی طرح اس کے ساتھ چلیں گے مانا وہ بہت اچھے انسان ہیں ان کے ساتھ تو کوئی آپ کی ایج کی لیڈی سوٹ کرتی ہے۔


رباب جو دوسرے کمرے میں اٹھ کر غصے سے چلی گئی تھی ان کی آوازیں اس کے کانوں تک صاف پہنچ رہی تھی اس کے دل میں بھی خیال آیا کہ ارشاد جیسا اچھا انسان میری ماں کو سوٹ کرتا ہے مگر باوجود علی سے محبت ہونے اور ارشاد کے ساتھ رشتے پر پچھتانے کے وہ اپنے آپ کو لاچار اور بےبس محسوس کرتی تھی کہ اس نے ماں سے وعدہ کیا تھاکہ وہ ان کی عزت پر حرف نہیں آنے دے گی۔ نانا جی سے کی زبان سے نہیں پھرے گی۔


اس کی فرینڈز اس کے کمرے میں گئی اور اس کو گلے لگا کر روتی رہیں اور اس کی اچھی قسمت کی دعائیں کرتی رہیں جواب میں رباب بھی رو رو کر اپنے تلخ رویے کی معزرت کرتی رہی۔ پاس بیٹھی بہار بھی روتی اور اس کی اچھی قسمت کی دعائیں کرتی رہی کیونکہ اس بچی کی وجہ سے اس کی زندگی بہار بن جاتی جب وہ ہدایت کی زیادتیوں اور لڑائی مار کٹائی پر دکھی ہوتی تو وہی اس کے آنسو پوچھتی اور اس کو پیار کرتی اور دل میں باپ کے مرنے کی دعائیں کرتی۔ اگر کھبی بہار کے سامنے کرتی تو بہار اسے سختی سے ٹوک دیتی۔


بہار رباب کو سمجھاتی کوئی انسان برا پیدا نہیں ہوتا وقت اور حالات اسے برا بنا دیتے ہیں کچھ تو سیدھی راہ پر ہر حالت میں چلتے رہتے ہیں مگر کچھ شیطان کے بہکاوے میں آ کر انتقام کا جزبہ دل میں ڈال کر اپنے سے بے بس پر غصہ اتارتے رہتے ہیں جو ان کی دسترس میں ہوتا ہے۔ چاہے کمزور بیوی یا اولاد، یا ملازم یا جو بھی ان کو اپنے سے کمزور لگے اس پر دھونس جمانا اور رعب ڈالنا ان کی فطرت بن جاتا ہے۔


بہار رباب کو سمجھاتی کہ تمھارے باپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ایک تو بچپن کی یتیمی پھر معاشی مسئلے کے پیش نظر اس کی ماں کا بھائی کے در پر زندگی گزارنا اور دب کر رہنا اور اسے بھی تلقین کرنا۔ پھر مامی کا نحوت بھرا رویہ۔ اس کے بچوں کے مقابلے میں اس کی احساس کمتری۔ پھر ان کے بچوں کا بھی ماں کی شہہ پر اسے حقیر سمجھنا اور اسے زلیل کرنا۔ ماموں کی مامی کے اگے بےبسی۔ ماں کا نوکر کی طرح کام کرنا۔ ان کے اور ان کے بچوں کے اترن پہننا ہدایت کو اندر ہی اندر باغی بناتے رہے۔ ماں اسے ایک ہی نصیحت کرتی بس تم تعلیم نہ چھوڑنا۔ اس نے بھی تعلیم حاصل کی اور انیسویں گریڈ تک پہنچ گیا۔


نکاح سے دو دن پہلے بہار کو ٹیلی فون آیا کہ علی نے خواب آور گولیاں کھا لی ہیں اور وہ اب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔


بہار نے سنا تو رونے لگی۔ رباب نے سنا تو چیخیں مار مار کر رونے لگی کہ اسے اس حال میں میں نے پہنچایا ہے میں نے اس سے شادی سے انکار کیا تھا میں نے اس کا دل توڑا کہ میں اس سے پیار نہیں کرتی جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے میں علی سے شدت سے پیار کرتی ہوں مگر میں مجبور تھی۔ وہ ہاسپٹل میں بیٹھی سب کے سامنے بہکی بہکی باتیں کر رہی تھی اس کی فرینڈز اسے سنبھال رہی تھیں شمیم رو رہی تھی علی کی ماں کو تسلیاں دے رہی تھی۔ سارا خاندان جمع تھا اور بہار رباب کی بہکی باتوں سے حیران و پریشان ہو رہی تھی۔


بہار علی کی ماں کو تسلیاں دے رہی تھی اور دعائیں بھی کر رہی تھی۔ ارشاد کے والد صاحب خاموشی سے کرسی پر بیٹھے تھے علی کا باپ اس وقت کو کوس رہا تھا جب وہ پاکستان آیا تھا وہ کہتا کاش وہ پاکستان نہ آتا اور اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔


شمیم روتے ہوئے باپ کو کہہ رہی تھی کہ ان سب کے آپ زمہ دار ہیں اگر آپ اپنی خواہشات کے غلام نہ ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ارشاد کون سے ملک کا بادشاہ ہے جس کے بیٹے نے اس کا تخت نشین ہونا ہے۔اولاد نہ بھی ہو تو ساری جاہیداد، مال ودولت غریبوں کے نام کرنے سے آپ کی آخرت سنور جائے گی نسل کیا دے گی الٹا عیش کرے گی جس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہونا۔


دراصل بہار سے شبیر اور اس کی مامی کے بیٹے نے رباب کے رشتے کی بابت بات کی کہ ارشاد رباب کے لیے مناسب نہیں ہے وہ چاہتے تھے کہ بہار سے رباب کی بات کر کے اس کا رشتہ علی سے کر دیں اور بہار کا ارشاد سے۔


مگر بہار نے ان کی مکمل بات سنے بغیر ہی فیصلہ سنا دیا کہ وہ اور اس کی بیٹی ایک بار اب فیصلہ کرچکی ہیں اور وہ کسی صورت بیٹی کی خوشی خراب نہیں کر سکتی۔ یہ اس کی بیٹی کی خوشی ہے۔


اس وقت شبیر، مامی کا بیٹا، ارشاد، اس کا شوہر اور علی کے والدین سب نے خفیہ پلان بنایا کہ شادی کی تیاریاں روٹین میں کرتے ہیں نکاح سے ایک دن پہلے علی سے ڈرامہ کروانا ہے کہ اس نے رباب کے پیچھے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ارشاد کے ایک دوست سے بھی ریکویسٹ کر چکے تھے اور اس کو ساری صورتحال بتا چکے تھے اس نے ہنس کر کہا تھا کہ اب مجھ سے دلوں کو جوڑنے کا بھی کام کروانا ہے۔ اس نے ہامی بھر لی۔


ادھر علی نے رباب کی باتوں سے دل برداشتہ ہو کر اصل میں نیند کی گولیاں کھا لیں اور کسی کو بتایا بھی نہیں۔ اتفاق سے اس کا موبائل شمیم کے کمرے میں چارج پر لگا تھا اور ارشاد نے کال کی تو شمیم نے یس کر کے حال احوال پوچھ کر موبائل ملازمہ کو دیا کہ علی کو دے آے۔ وہ کمرے میں داخل ہو گئ کیونکہ دروازہ کھلا تھا اور بار بار دستک پر بھی وہ جواب نہ دے رہا تھا ملازمہ نے اندر جھانک کر پوچھا کہ سر آپ کا فون۔۔۔۔۔۔۔۔


ابھی اتنا ہی بولی تھی کہ دیکھا علی قالین پر بیہوش پڑا تھا پاس دوا کی خالی شیشی پڑی تھی وہ چیختی ہوئی آئی اور بولی علی صاحب بےہوش پڑے ہیں پاس دوا کی خالی بوتل پڑی ہے بس ارشاد نے سن لیا اور گاڑی نکال کر جلدی سے ملازم کو بتا کر علی کو لینے چل پڑا۔


ہاسپٹل میں جب نرس نے آکر بتایا کہ آپ کے دوست کے بھانجے علی کو لاے ہیں اس نے خواب آور گولیاں کھا لی ہیں تو اس نے ڈرامہ سمجھا اور سکون سے بیٹھا رہا اتنے میں ارشاد تیزی سے اندر آیا تو اسے ڈانٹتے ہوئے بولا جلدی کرو وہ بولا اچھا سکون کرو مگر ارشاد نے کہا اس نے سچ مچ کی کھا لی ہیں تو وہ گھبرا کر چل پڑا۔


علی کی امی کھبی کبھار نیند کا مسئلہ ہو تو کھا لیتی تھیں علی چپکے سے ان کے کمرے سے لے آیا اتفاق سے اس میں کم تھیں پھر جتنی تھیں اس نے پانی سے پھانک لیں۔


اس کامعدہ واش کر دیا گیا تھا اور اب وہ خطرے سے باہر تھا مگر ارشاد کے ابو اور رباب کو راہ راست پر لانے کے لیے اس بات کو پھیلایا گیا کہ کل تک اگر ہوش نہ آیا تو اس کی جان کو خطرہ ہے۔ رباب رو رو کر علی کی زندگی کی دعائیں کر رہی تھی اس کی فرینڈز ارشاد کو انکل پکار رہی تھیں تو رباب بھی ارشاد کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر انکل انکل کہہ کر التجائیں کر رہی تھی کہ انکل پلیز میرے علی کو بچا لیں میں اس کے بغیر مر جاوں گی وہ بہار اور ارشاد کے والد سے سوری بول کر معافی مانگ رپی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ماما میں علی سے پیار کرتی ہوں اور یہ شادی اس لیے کر رہی تھی کہ آپ سب کے سامنے شرمندہ نہ ہوں آپ کی بےعزتی نہ ہو اور نانا جی مجھے وعدہ خلاف نہ سمجھیں اور میں نے علی کو اس لیے انکار کرتی رہی۔


بہار نے اگے بڑھکر بے اختیار اسے چومتے ہوئے کہا کہ تو محض میری عزت کی خاطر اور نانا کی بات کی لاج کی خاطر اتنی بڑی قربانی دینے والی تھی۔ مجھے تجھ پر فخر ہے ایسا عزت کا پاس تو آجکل سگی بیٹیاں نہیں کرتی ہیں۔ سب اس کو واہ واہ کر رہے تھے اور نانا جان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بیٹی تم نے اپنی ثابت قدمی اور ایثار سے میرا سر جھکا دیا ہے۔ اب میں خود تمھاری شادی علی سے کرواہوں گا اور بہار کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولے اور بہار کی ارشاد سے۔


بہار نے حیرت سے ان کی جانب دیکھا تو رباب خوشی سے تالیاں مارتے ہوئے زور سے چلا کر بولی ہرے نانا جان زندہ باد۔ ارشاد نے بھی حیرت سے باپ کو دیکھا اور قریب آیا تو انہوں نے معافی مانگتے ہوئے کیا کہ میں غلطی پر تھا اب اگر تمھارا کوئی بچہ نہ بھی ہوا تو کوئی غم نہیں ہے۔ اگلی نسل کو ےو دادا، پردادا کا نام تک یاد نہیں ہوتا لجا کہ وہ ان کے ایصال ثواب کے لئے کچھ خیرات صدقہ کریں۔ اب میں اپنی دولت سے ایک حصہ غریبوں کی فلاح و بہو کے لیے وقف کر دوں گا انشاءاللہ جو بعد میں بھی میرے لئے صدقہ جاریہ بن سکے گا۔


علی جس کو زبردستی لٹایا گیا تھا رباب کی آوازیں اس تک صاف پہنچ رہی تھیں۔


ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اب بزرگوں کو اور ٹینشن نہیں دینی یہ نہ ہو ان کی صحت متاثر ہو جائے۔ اس نے باہر آ کر کہا کہ علی کو ہوش آ گیا ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہے مگر کسی رباب کا بار بار نام لے رہا ہے۔ اسے لے لر فوراً آہیں۔ باقی لوگ صبح یا کچھ دیر بعد مل لیجیے گا۔


رباب کو کمرے میں بھیجا گیا علی کو ایکٹنگ کرنے کا بولا۔ وہ آہستہ آہستہ رباب رباب پکارنے لگا تو رباب نے روتے ہوئے اس سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا تو علی نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں تو و وہ شرما کر جانے لگی تو علی نے ڈرپ والا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور کہا کہ وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ہے۔


رباب شرما کر بولی نہیں اور تیزی سے باہر نکل گئی رباب نے سنا کہ شمیم بہار کو کہہ رہی تھی کہ بہار تم نے اور ارشاد نے دوسروں کی خوشنودی کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں اب تم دونوں کے پیار میں کوئی نہیں آئے گا ارشاد پاس کھڑا بولا انشاءاللہ اب میں کسی کو اپنے اور بہار کے درمیاں آنے بھی نہیں دوں گی اور بہار شرما گئ۔


رباب پاس آئی اور حیرت سے بولی ماما کیا آپ میری خوشی کے لئے اپنا پیار قربان کر رہی تھیں۔ شمیم نے اس کو ساری تفصیل بتا دی تو رباب روتے ہوئے بہار کے گلے لگ کر بولی ماما مجھے آپ پر فخر ہے۔ پھر ارشاد کو مکہ مار کر بولی پاپا آپ کی پٹائی ہونی چاہیے اب میں آپ کو پاپا بولوں گی۔ اس نے اسے ساتھ لگا کر سر پر پیار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معاف کرنا گڑیا میں بھی رشتوں کے احترام اور باپ کے مان کے آگے مجبور تھا۔


رباب فخریہ انداز میں بولی مجھے اپنے پاپا پر بھی فخر ہے۔ شمیم بولی اچھا اب سب چل کر گھر آرام کریں شکر ہے پرائیویٹ کلینک ہے ورنہ ہمارے ڈرامے سب لوگ دیکھ رہے ہوتے دراصل ارشاد نے ڈاکٹر کو ڈیل کر کے اس پورشن کو خالی کروا لیا تھا تاکہ پراہیویسی رہے۔


شادیاں دھوم دھام سے سر انجام پا گیں۔ بہار سے نانا جان بہت خوش تھے کہ اس کو خدا نے دو سالوں میں دو یکے بعد دیگرے دو بیٹوں سے نعازا تھا۔


علی اور رباب کی ایک بیٹی تھی۔ جو سب گھر والوں کی جان تھی۔۔


ارشاد کے والد حیران ہوتے تھے کہ خدا نے انہیں بڑی عمر کی عورت سے دو پوتے عطاء کیے۔ جبکہ جوان سے لیٹ اور ابھی ایک ماہ کی بچی پیدا ہوئی اور وہ اس کی بیٹے طرح خوشیاں منا رہے ہیں تھے کہتے تھے کہ ان کے نزدیک بیٹا یا بیٹی کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔


ارشاد کے ابو کو اپنے پچھلے رویے اور سوچ پر شرمندگی محسوس ہونے لگی۔


ختم شد


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں




Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.