Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 11

Episode 11

جنازے سے واپس آ کر ارشاد نڈھال سا آیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔


بہار نے شمیم سے کہا کہ ارشاد کو اس وقت مورل سپورٹ کی ضرورت ہے آپ اس کو کھانا کھلاہیں جا کر۔


شمیم سرد آہ بھر کر بولی اس وقت اسے تمھارے سپورٹ کی ضرورت ہے۔ ارشاد کے ابو پیچھے کھڑے ہوئے تھے انہوں نے بہار کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے سب کو اچھی طرح سنبھالا۔اس کے لئے گھر کی روٹی پکا کر دی۔ وہ بہت حیران اور خوش ہوے کہ بہار کو سب کا کتنا خیال ہے۔


بہار نے کہا انکل شکریے کی کوئی بات نہیں یہ میری بیٹی کا ہونے والا سسرال ہے اس ناطے میرا تو فرض بنتا ہے۔


ارشاد کے ابو اس کی بات سن کر سر جھکا کر چل پڑے۔


پریشان حال سر کے بال کافی سارے سفید ہو رہے تھے۔ ان کے خاندان میں بال جلدی سفید ہو جاتے تھے۔ ارشاد کا سر بھی کافی سفید ہو رہا تھا۔


شمیم کسی کو بتا رہی تھی کہ صرف بیٹی کی سالگِرہ پر سر کالا کرتا تھا سال میں ایک بار۔ اب تو وہ بھی نہیں کرے گا۔


ارشاد کے لیے بھی بہار نے گھر کی روٹی پکا کر دی۔ جب شمیم کھانا لے کر گئ تو اس نے انکار کر دیا تو شمیم نے کہا کہ بہار نے روٹی اپنے ہاتھ سے پکائی ہے۔ اور اسے زبردستی الاونج میں لے آئی۔


ارشاد کے ابو بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے سب ممان جا چکے تھے سواے قریبی لوگوں کے۔


شمیم نے کہا کہ کھانا کھا لو بہار نے محنت کی ہے۔


ارشاد نے بہت اعتماد سے بیٹھی بہار کی طرف دیکھا تو جیسے اس کے دل کو تسلی مل گئی اور اس نے خاموشی سے کھانے کا پہلا نوالہ توڑا تو اس کی بھانجی اس کے قریب آ کر بیٹھ گئ اور رباب کو بھی پاس بٹھا لیا اور بولی چلو میں اپنے پیارے ماموں جان کو کھانا کھلاتی ہوں۔ وہ اسے کھانا کھلانے لگی اور وہ کھانے لگا بس کھبی اچٹتی نظر بہار پر ڈال لیتا۔ کھانا کھا چکا تو شمیم آپا بولی شکر ہے اس نے کھانا کھا لیا ورنہ یہ کل سے کچھ نہیں کھا رہا تھا۔


ارشاد نے باپ سے پوچھا ابا جی آپ نے کھا لیا۔


شمیم نے جواب دیا ہاں تمھاری اور ابا جی کی روٹی بہار نے گھر پر پکائی تھی۔


اس نے تشکر بھرے انداز میں بہار کو دیکھتے ہوئے کہا آپ کا بہت شکریہ۔ آپ نے آ کر ہمارا ساتھ دینے اور ہمارے دکھ میں شریک ہونے کا بہت شکریہ۔


آپ نے خود بھی کھانا کھایا کہ نہیں۔؟


شمیم بولی کہہ رہی تھی پہلے ابا جی اور ارشاد کھا کر فارغ ہو جائیں تو پھر ہم کھاتے ہیں۔


بہار نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میری بیٹی کا ہونے والا سسرال ہے اس میں شکریے کی کوئی بات نہیں ہمیں اصولاً آنا ہی تھا۔


رباب سب کچھ حیرت سے دیکھ اور سن رہی تھی۔


ابا جی نے بھی بہار کی تعریف کی کہ اس نے ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا بہار بی بی اگر آپ سے ریکویسٹ کی جاے کہ شادی کے بعد آپ بھی ہمارے گھر ہمارے ساتھ رہ جاہیں تو ہمیں خوشی ہوگی ویسے بھی آپ اس شادی کے بعد اکیلی ہو جاہیں گی اور اگر خالہ کے دم بھی نہ رہا تو آپ کدھر جائیں گی۔


شمیم خوشی سے بولی بلکل ٹھیک ہے بہت مناسب ہے۔


ارشاد نے بھی کہا آپ نے ادھر شفٹ ہونا ہے۔


رباب بھی خوش ہو کر بولی یس ماما۔


بہار نے سب کی طرف دیکھا اور بولی آپ سب کے خلوص کا بہت شکریہ مگر میں رہنا تو دور کی بات بیٹی کے گھر شازو نادر ہی آیا کروں گی مجھے بیٹی کے گھر اور داماد کے درمیان رہنا انٹرفیر کرنا مناسب نہیں لگتا۔ویسے بھی اوپر والا خوب جانتا ہے جس نے جن کو اولاد نہیں دی یا بیٹے نہیں دیے ان کو وہ بے آسرا نہیں چھوڑتا۔ وہ کوئی وسیلہ بنا ہی دیتا ہے۔


رباب تڑپ کر بولی کیوں ماما۔ آپ ساتھ کیوں نہیں رہ سکتیں۔ میں نے تو سوچا تھا ادھر اتنا بڑا گھر ہے آپ بھی آرام سے رہ لیں گی۔


ارشاد نے کہا آپ کو ہمارے ساتھ ہی رہنا ہے تب ہم تسلی میں ہوں گے میں نے اس بارے میں پہلے ہی سوچا ہوا تھا۔


بہار نم آنکھوں سے ارشاد کو دیکھتے ہوئے بولی نہیں ارشاد میرے لیے یہ ممکن نہ ہوگا۔


اور اٹھ کر بولی چلو رباب چلیں دیر ہو رہی ہے۔


ابا جی نے کہا کھانا کھا کر جانا۔


بہار بولی نہیں انکل بھوک نہیں ہے۔


شمیم بولی کمال ہے تم نے تو ابھی تک پانی تک نہیں پیا سب کو کھلا کر اب بھوکی جاو گی مجھے بھی زبردستی کھلایا کہ میں نے دوا کھانی تھی۔


ارشاد نے اسے زخمی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ آپا ان کا کھانا پیک کر دیں۔


بہار بولی نہیں میرے گھر کھانا پکا ہوا ہے بس جا کر جب بھوک لگی روٹی پکا لوں گی بہت شکریہ۔


ارشاد نے کہا کہ علی آپ کو چھوڑ آئے گا۔


وہ بولی رہنے دیں اوبر یا کریم کروا لوں گی۔


ابا جی نے کہا نہیں علی چھوڑ دے گا۔


بہار چپ ہو گئی اور علی کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی وہ بھاگ کر گاڑی کی چابی لے آیا۔


راستے سے علی نے مکڈونلز سے تین برگر لیے اور گاڑی روک کر بولا چلیں پیٹ پوجا کرتے ہیں۔


رباب خوشی سے بولی واہوہ برگر۔


بہار نے کہا بیٹا آپ نے کیوں تکلیف کی۔


علی نے کہا آنٹی جی میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے آپ نے ان ولن صاحب کا پیٹ تو بھر دیا مگر ہم بے چاری عوام کو پوچھا ہی نہیں۔


رباب معصومیت سے پوچھنے لگی کون ولن۔؟


علی منہ بگاڑ کر بولا وہ بزرگوار نانا صاحب اگر بس میں ہوتا تو میں ان کا ٹکٹ کٹوا چکا ہوتا۔


بہار مسکرانے لگی۔


بہار بچوں کی طرح خوش ہو کر برگر مزے لے لے کر برگر کھا رہی تھی اور علی اسے محبت پاش نظروں سے دیکھ کر بہار کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولا آنٹی جی آپ کیوں اس معصوم کی زندگی برباد کر رہی ہیں یہ اتنی زمہ داریاں اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ اس گھر کو معاف کرنا آپ جیسی میچور عورت کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے آپ جیسی عمر کی آپ نہیں۔ آپ برا مت مانیے گا۔


بہار جس کو اس نے زبردستی فرنٹ سیٹ پر بٹھایا تھا۔


بہار بولی مجھے اپنی بیٹی کی خوشی عزیز ہے۔


علی ناگوار شکل بنا کر بولا وہ تو بےوقوف ہے بعد میں پچھتائے گی۔ کون سا ارشاد ماموں اس پر مرتے ہیں وہ میری ماما کے کزن ہیں میرے ماما انہیں بچپن سے جانتی ہیں کہتی ہیں کہ وہ صرف باپ کو خوش کرنے کے لیے مانا ہے ورنہ اسے پہلے کوئی اپنی کلاس فیلو پسند تھی ہم لوگ اس وقت امریکہ میں سیٹل تھے۔ ارشاد انکل اس لڑکی سے بہت پیار کرتے تھے اس وقت بھی نانا ان کے پیار کے درمیان آئے اور اب میرے۔ دیکھیں آپ کو مجھ میں کوئی خرابی نظر آ رہی ہے۔ رباب کی نظر کے ساتھ دماغ بھی خراب ہے۔ آپ تو اس کو سمجھا دیں۔


بہار کھوئی کھوئی سی بولی ارشاد میں بھی کوئی خرابی نہیں خوش قسمت لوگوں کو ایسے لوگ نصیب ہوتے ہیں میں جانتی ہوں کہ وہ میری بیٹی کے حقوق وفراہض پورے کرنے میں کھبی کوتاہی نہیں کرے گا۔ اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔


علی بولا وہ 37 سال کے ہیں۔ انہوں نے پڑھائی بھی لیٹ شروع کی پہلے باپ کا بزنس سیٹ کرنے میں لگے رہے پھر ان کے باپ کو خیال آیا تو انہوں نے ان کو پڑھائی کی طرف لگایا۔ آپ کی بیٹی ابھی صرف بیس سال کی ہے۔ خود سوچیں کتنا فرق ہے۔ سولہ سترہ سال کا۔


اگر ان کی سولہ سال کی عمر میں شادی ہوتی تو اتنی ان کی بیٹی ہوتی۔ دن بدن وہ عمر کے اضافے کی طرف ہی جاہیں گے نا۔


بہار بولی اگر میں بیٹی نہ بھی دوں تب اس کے ابو کو کوئی فرق نہیں پڑنا انہوں نے کوئی اور جوان لڑکی ڈھونڈ لینی ہے تو پھر میں اس جیسے اچھے انسان کو کیوں چھوڑوں جس میں میری بیٹی کی خوشی پنہاں ہے۔


علی سانس بھر کر بولا اچھا اگر وہ پیچھے ہٹ جاہیں تو تب تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا نا میرے لیے۔


بہار بولی ایسا ممکن نہیں تمھارا ماموں وعدہ خلاف کیسے ہو سکتا ہے۔


علی نے تفصیل بتاتے ہوئے قاہل کرنے والے انداز میں سمجھایا کہ میں جانتا ہوں کہ ماموں کھبی ایسا نہیں کر سکتے مگر اس کیس میں حالات مختلف ہیں۔ ماموں جانتے ہیں کہ میں رباب کو پیار کرتا ہوں اور وہ ان سے کافی کم عمر ہے۔ وہ اس کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتے۔ میرے گھر والوں کے ساتھ ان کی ڈیٹیل بات ہوئی ہے۔ وہ صرف باپ کی صحت و سلامتی کے لے اموشنل بلیک میل ہوئے ہیں۔ نانا بہت ضدی ہیں۔ ماموں ڈرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ ہو نہ جائے۔ کیونکہ وہ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی زندگی انہیں عزیز ہے۔ وہ کہتے ہیں نانا کو منا سکتے ہو تو منا لو مجھے وہ نکاح سے ایک سیکنڈ پہلے بھی مان جاتے ہیں تو میں اسی وقت تمھارے راستے سے ہٹ جاوں گا اور رباب کی شادی تم سے کروا دوں گا وہ بن باپ کی بچی ہے میں اس کی شادی اپنی زمہ داری پر کرواوں گا ان ماں بیٹی کو کھبی اکیلا نہیں چھوڑوں گا ہمیشہ ان کی سرپرستی کروں گا جانتا ہوں بہار صاحبہ بہت خودار ہیں مگر میں ان کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ آپ کی وہ بہت عزت کرتے ہیں اور آپ کی تعریف کرتے ہیں۔ددراصل آنٹی آپ ہیں ہی اتنی اچھی۔


بہار نے کہا نہیں اب ایسا بھی کچھ نہیں۔


رباب جو خاموش بیٹھی ہوئی تھی بڑے وثوق سے بولی میری ماما دنیا کی سب سے عظیم ماما ہیں۔


علی نے اس کو مرر سے دیکھتے ہوئے کہا شکر ہے تم نے کوئی کام کی بات بولی جس سے میں 100 پرسنٹ ایگری ہوں ورنہ تمھاری اور کسی بےوقوفی سے میں ایگری نہیں ہوں۔


رباب اسے منہ چڑا کر رہ گئ۔


وہ مسکرانے لگا۔


علی پھر بہار سے مخاطب ہو کر بولا آنٹی جان آپ کی ہمارے گھر والے بھی بہت تعریف کرتے ہیں اور اس پیچھے بیٹھی چڑیل کی بھی کہ بہت معصوم ہے۔ اس عمر میں لڑکیاں کچھ باپ کے پیار کی کمی کی وجہ سے بھی اس قسم کے آہیڈیل بنا لیتی ہیں کچھ تو سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے نبھاتی ہیں اور کچھ بہت میں پچھتاتی ہیں۔


میرے سب گھر والوں نے نانا کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوے بولے تم لوگ بے شک رباب کا رشتہ لے لو میں کسی اور جوان لڑکی سے شادی کروا دوں گا کسی غریب گھر سے لے آوں گا۔ خرید لاوں گا۔ وہ بڑبڑایا کمبخت ہٹلر کہیں کا۔ پھر وہ بہار سے منت بھرے لہجے میں بولا آنٹی پلیز آپ تو مان جائیں اور میری خواہش پوری کر دیں۔ ماموں کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا رباب ہو یا کوئی اور۔


بہار بےبسی سے بولی مجھے صرف اپنی بیٹی کی خوشی عزیز ہے۔


علی جواب سن کر سرد آہ بھر کر سوچنے لگا ادھر محنت کرنے کی بجائے ان کی بیٹی کو کنوینس کرنا پڑے گا۔


اس نے کہا کہ چلیں آس کریم کھلاتا ہوں میں آپ کو۔


رباب خوشی سے بولی واہوہ۔


بہار منع کرتے ہوئے بولی نہیں بیٹا تمھیں دیر ہو جائے گی۔


علی نے رازداری والے انداز میں کہا کہ میں نے گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ میں رات لیٹ ناہٹ تشریف لاوں گا اور میرے بتانے سے پہلے ہی ماما ہنس کر بولی تھیں وہ تو تم نہ بھی بتاتے تو ہمیں اندازہ تھا۔


وہ آہس کریم پارلر لے گیا اور فیملی کیبن میں بیٹھ کر مینیو آگے کرتے ہوئے بولا بتائیں کون سی کھانی پسند کریں گی۔


بہار بولی جو میری بیٹی کھاے گی وہی کھاوں گی۔


رباب پھر جوش وخوشی سے مینو دیکھنے لگی پھر بولی کون سا لوں یہ بھی پسند ہے اور یہ بھی۔ چلیں وہ سانس بھر کر بولی یہ والی لے لیتی ہوں۔


علی اٹھ کر اسے آرڈر سمجھانے لگا۔


رباب ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ماما کتنا اچھا لگ رہا ہے نا۔


ہلکہ ہلکہ میوزک بھی بج رہا تھا بہار کو بھی اچھا لگ رہا تھا علی معزرت کرتے ہوئے اٹھنے لگا تو رباب مزاق میں بولی ویٹر سے برتن دھونے کی ڈیل کرنے جا رہے ہو۔


وہ مسکراتے ہوئے بولا تم بھی ساتھ دھلاو گی نا۔ اور چل پڑا۔


جاری ہے۔




Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.