Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 5

Episode 5

بہار نے جب سنا کہ وہ ارشاد کا رشتہ نہیں تھا تو بہت غمگین ہوئی اور دعائیں کرنے لگی کہ اللہ کرے ارشاد کا رشتہ آ جائے کاش اس نے ارشاد کا نمبر لے لیا ہوتا اور اس کو اطلاع دے سکتی کہ آ کر اسے اس بڈھے سے بچا لے اگر وہ لیٹ ہو گیا تو امی جان اس بڈھے سے شادی کروا کر دم لیں گی۔


ارشاد گھر میں اپنے کمرے میں بیٹھا سٹڈی کر رہا تھا کہ آپا شمیم اس کے کمرے میں آ کر اسے کچھ لڑکیوں کی تصاویر دیکھانے لگی ان میں سے لڑکی پسند کرو ۔ امی ابو نے میری ڈیوٹی لگائی ہے پیپرز ختم ہوتے ہی تمھیں عمر قید کر لیا جائے گا۔


ارشاد نے جلدی جلدی جان چھڑانے کے لئے دیکھیں اور واپس کرتے ہوئے کہا کہ ایک بھی کام کی نہیں۔


آپا نے قاہل کرنے کے لیے کہا کہ سب پڑھی لکھی اور ہماری ہم پلہ اور اچھی زات کی ہیں۔


ارشاد چڑ کر بولا مجھے اچھی بیوی چاہیے نہ کہ زات پات اور دولت والی۔


آپا بڑبڑاتی ہوئی چل پڑی۔


ارشاد کے زہن میں ایک خیال آیا اس نے آپا کو ہمراز بنانے کا سوچا کہ وہ بہار کے بارے میں کل ہی اسے بتا دے یہ نہ ہو گھر والے کسی ایک سے اس کی شادی کروانے کا سوچ لیں۔


دوسرے دن ارشاد آپا کو شاپنگ کے بہانے لے گیا اور وہاں ایک کیفے میں بیٹھ کر سکون سے اسے ساری بات بتائی۔


آپا سن کر فکرمند ہو گئی وہ باپ کی سخت مزاجی کو جانتی تھی یہ بھی جانتی تھی کہ وہ زات پات کے کتنے قاہل ہیں۔ پھر بھی بھائی کے مجبور کرنے پر وہ ان سے بات کرنے پر رضامند ہو گئی۔


بڑی دقتوں کے بعد کچھ ماں کے سمجھانے پر کہ جوان بیٹا ہے کچھ کر نہ بیٹھے زندگی اس نے گزارنی ہے۔ وہ لڑکی کے گھر چلنے پر راضی ہو گئے۔


ارشاد نے کلرک صاحب کو فون کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور بیوی کو خوش خبری سنائی بیوی کچھ خاص خوش نہ ہوئی اسے ہدایت کی ماں کا دبہ دبہ لہجہ پسند آیا تھا۔


بہار کی تو جیسے دلی مراد بھر آئی وہ خوشی خوشی گھر کو چمکانے لگی۔ ان لوگوں نے کہا تھا کہ وہ شام کے وقت آہیں گے اس وقت تو چاے کا ہی وقت تھا وہ لمبا چوڑا تو اہتمام کر نہیں سکتی تھی پھر بھی وہ اپنے بجٹ سے زیادہ کر رہی تھی ساتھ ساتھ ماں کی بڑ بڑ بھی سن رہی تھی جو اتنا خرچہ کرنے پر اسے کوس رہی تھی ۔


بڑی سی گاڑی میں ارشاد کے والدین اور ارشاد آئے۔ ارشاد کی آپا نے عمرے پر جانا تھا پھر نند کے پاس دوبئی جانا تھا وہ منت سماجت کر کے والدین کو بہار کے گھر بھیجنے میں کامیاب ہو گئ تھی۔


گھر اور ایریا دیکھ کر ارشاد کے باپ کی شکل بن گئی۔ ارشاد کی ماں ارشاد کے مجبور کرنے پر شگن کا سامان بھی ساتھ لائ تھی۔


ارشاد کی ماں کو تو بہار اتنی پسند آئی کہ اس نے جھٹ اپنی رضامندی دے دی اور رسم ادا کرنے کے لیے بےچین ہو گئی۔ باپ بیوی اور بیٹے کے آگے کچھ بول نہ سکا اور رشتہ پکا کر دیا۔


گھر آ کر بھی باپ کے دل سے یہ غم نہیں جارہا تھا کہ وہ سب اس کی مرضی کے خلاف ہوا ہے پھر ویسے ہی دوست کو زکر کیا کہ بیٹے کا رشتہ کرنے جانا ہے۔ وہ عارضی رسم تھی اب پکا کرنے جانا ہے۔


دوست نے جب سنا اور جھٹ اپنی بیٹی کا رشتہ پیش کر دیا اور اپنی کاسٹ بھی وہی بتائ جو ارشاد کے باپ کی تھی بعد میں یہ سب جھوٹ نکلا اس نے محض بیٹی کا رشتہ لگانے کے لئے جھوٹ بولا کیونکہ ارشاد کا باپ زات پات کا شیدائی تھا۔ دوست اس کے پاوں پڑ گیا کہ وہ مرنے والا ہے۔ بس ایک بار میری بیٹی کا نکاح کروا کر اپنے گھر لے جاو بعد میں بےشک بیٹے کی دوسری شادی کروا دینا اور میری بیٹی کو ساری زندگی نوکرانی بنا کر رکھ لینا۔


باپ نے اس بات کو آڑ بنا کر بیٹے کو ادھر نکاح کرنے پر مجبور کر دیا اور نکاح خواں کو بھی ساتھ لے گیا کہ کہیں بیٹا مکر نہ جائے اسے کہا کہ بعد میں تم بہار سے شادی کر لینا۔ ادھر بہار کے والد کو مظلوم بن کر دوست کی بیٹی کے نکاح کا بتا دیا۔


بہار کی ماں جس نے ابھی تک ہدایات کی ماں کو جواب نہیں دیا تھا صرف ٹال مٹول کر رہی تھی جھٹ سے انہیں نکاح کرنے کے لیے بلا لیا۔


باپ نے احتجاجی کیا تو غصے سے پھٹ پڑی کہ اب کس چیز کا انتظار ہے اگلوں نے نکاح پڑھوا کر خوشخبری سنا دی۔ اب میں یہ اچھا رشتہ بھی ہاتھ سے جانے دوں۔


بہار نے جب سنا کہ ارشاد نے نکاح کر لیا ہے تو اس کو بہت غصہ آیا اور اس نے ماں والے رشتے پر رضامندی دے دی۔


بہار کا نکاح سادگی سے ہوا اور وہ لوگ بہار کو لے گئے۔


نکاح کے بعد بہار پر ارشاد کی سچائی کھلی کہ وہ مجبور تھا اور اس شرط پر کیا تھا کہ وہ بعد میں بہار سے بھی شادی کرے گا مگر غصے اور جزبات میں آ کر اس کی ماں نے نکاح کروا دیا۔ ارشاد نے آ کر اس کی ماں کو سچائی بتائ اور کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا جبکہ ابو نے فون پر آپ کو سب بتا دیا تھا۔


بہار کی ماں بولی انہوں نے اپنی مجبوری کی کہانی سنائی تھی کہ وہ دوست کی آخری خواہش پوری کر رہے ہیں انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ بعد میں بہار سے نکاح کرواہیں گے۔ بہار جو میکے آئی ہوئی تھی اس نے کچن میں سے ساری بات سن لی اس کا دل ارشاد کے لئے جو بدگمان تھا صاف ہو گیا مگر اپنی شادی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر دل سے قبول کر لیا کیونکہ وہ ایک مشرقی لڑکی تھی ماں کو شرمندہ نہیں دیکھ سکتی تھی جو ارشاد کے آنے سے اپنی جلدبازی پر پچھتا رہی تھی اور بہار ماں کو تسلیاں دے رہی تھی۔ اور اپنے آپ کو خوش ظاہر کرتی تھی کیونکہ باپ اس کے غم سے دل کے اٹیک سے جلدی مر گیا تھا اور ہدایت بہار پر پابندیاں لگاتا موبائل تک نہ رکھنے دیتا ہر وقت ارشاد کے طعنے دیتا رہتا۔ بہار کی اس کے کالج میں ہی جلد نوکری بھی مل گئی تھی اور وہ اس کی ساری تنخواہ بھی لے لیتا وہ اف تک نہ کرتی۔


اس کی ماں شوہر کی وفات کے بعد اکیلی رہ گئی تھی گھر بھی کراے کا تھا۔ اس لیے مجبوراً بہار کو ماں ساتھ رکھنی پڑی۔ ہدایت کے ماموں کی ڈیتھ کے فوراً بعد ہی مامی نے انہیں اپنے گھر سے شفٹ ہونے کا عندیہ دے دیا کہ اب بہو کے پچھلوں کو بھی گھر میں پناہ دے دوں یہ گھر ہے یا سراے۔ پہلے ہی سراے بنا ہوا تھا۔


ہدایت اس کا الزام بہار کی ماں پر لگاتا جس کے آنے سے مامی نے انہیں گھر سے نہ صرف نکالا بلکہ رشتہ ناطہ بھی توڑ لیا۔


بہار ماں کو کہاں رکھتی۔ ماں بیٹی طعنے برداشت کرنے پر مجبور تھیں۔ اس کی بیٹی رباب دس بارہ سال کی بچی تھی اسے بہار ماں کی طرح چاہنے اور خیال رکھنے لگی۔ وہ باپ کے غصے سے ڈرتی رہتی تھی جو بہار پر چیختا چلاتا اور بلاوجہ ہاتھ بھی چلا لیتا۔ وہ کہتا میں اپنوں سے تمھاری وجہ سے دور ہوا ہوں تم سے نکاح کر کے میں نے اپنے ماموں کا گھر اور رشتے دونوں کھو دیے ہیں میری ماں شادی کرتے ہی جلد مر گئ میرے ماموں مر گئے تم تو اتنی منحوس ہو کہ تم نے تو باپ کو بھی نہ چھوڑا۔ میں صرف تمھیں اپنی بیٹی کے لئے برداشت کر رہا ہوں جو بےوقوف تمھارے ساتھ اٹیچ ہو گئ ہے۔ تم چالاک اور مکار ہو تم نے اپنی جگہ بنانے کے لیے میری بیٹی کا استعمال کیا ہے کوئی بات نہیں ابھی بچی ہے بڑی ہو کر تمھاری اصلیت خود سمجھ جائے گی۔


بہار کی کولیگ اس کو سمجھاتیں کہ ہدایت اچھا انسان نہیں ہے اس نے پہلے بھی اپنی پسند سے شادی کی تھی اور بعد میں اسے بہت تنگ رکھتا وہ بھی ٹیچر تھی وہ روتی تھی۔ اس کی ساری تنخواہ بھی لے لیتا اور موبائل بھی نہ رکھنے دیتا۔ اس پر شک بھی کرتا۔ وہ صرف اپنی بچی کے لئے اس کے ساتھ رہنے پر مجبور تھی اس کو اکثر مارتا پیٹتا۔ آخر اس کو بیماری لگی اور مر کر اس کی اس برے انسان سے جان چھوٹی۔ مگر تم کیوں سہہ رہی ہو۔ اب تو تمھاری ماں بھی مر چکی ہے۔ بیٹی اس کے حوالے کرو اور کسی گرلز ہاسٹل میں رہ لو کچھ لوگوں نے اپنے گھروں کو بھی ہاسٹل بنایا ہوا ہے جہاں بچے جن کا گھر سے اسکول دور پڑتا ہے۔ نوکری پیشہ عورتیں جن کو بھی یہی مسائل ہیں وہ ادھر ایک فیملی کی طرح رہتی ہیں گھر میں کھانا اجرت پر بنتا ہے وغیرہ۔ اس کی کولیگ نے اسے وہاں کا ایڈریس دینا چاہا مگر بہار نے انکار کر دیا اور کہا کہ بچی کو میں نہیں چھوڑ سکتی اس کے علاوہ اب میرا ہے ہی کون میری اپنی اولاد تو نہ ہو سکی۔


بہار کالج کے اسٹاف روم میں کولیگ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ کالج کی آیا گھبرائی ہوئی آئی اور کہا کہ ہدایت صاحب بےہوش ہو کر گر پڑے ہیں۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں۔




Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.