Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 10

Episode 10

بہار نے سوچا رباب تو شادی کو ایک گیم سمجھ رہی ہے۔ اسے سمجھ نہیں کہ شادی ایک زمہ داری کا نام ہے جو عورت کو مرنے دم تک نبھانی پڑتی ہے۔ اور رباب پر تو ابھی کوئی زمہ داری پڑی ہی نہیں تھی اس لیے اس نے ہر وقت سمجھانا اور نصیحت کرنا شروع کر دیا۔ رباب حیران ہوتی اور کھبی چڑ جاتی تو کہتی ماما میری دوست تو وہاں ہو گی نا وہ کہتی ہے ہم جب چاہیں شاپنگ پر جایا کریں گے جب چاہیں گھومنے نکل جایا کریں گے بہت مزہ آے گا۔


بہار نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ شادی کے بعد اپنی والدین کی بھی اپنی بیٹی پر مرضی نہیں چل سکتی تو دوست کیا چیز ہے۔ دوست بےشک گھر کے قریب رہتی ہے مگر کیا وہ ہر وقت تمھارے ساتھ ہو گی۔ پھر کیا اس کی شادی نہ ہو گی۔ تم جس کی محبت میں جا رہی ہو اس کا زکر ہی نہیں۔ ارے تم صرف ارشاد کے لیے جا رہی ہو اس کی بیٹی کی ماں بن کر۔


رباب جھٹ برا سا منہ بنا کر بولی کیا ماں۔ وہ لاپرواہی پسے بولی میں کسی کی ماں واں نہیں ہوں۔


بہار نے کہا کہ تم اگر ارشاد کی بیٹی کو اپنا نہیں سمجھو گی تو ارشاد جو اس پر جان دیتا ہے وہ خفا ہو جائے گا پھر کیا کرو گی۔ اور نانا جی کی بھی خدمت کرنی پڑے گی ان کے پاس بیٹھ کر ان سے گپ شپ کرنی پڑے گی۔ گھر کے سارے نظام کو دیکھنا پڑے گا کیونکہ وہاں کوئی عورت نہیں ہے۔اور گھر کے مردوں کا ناشتہ۔ کھانا ان کے کپڑوں کی دھلائی وغیرہ گھر کی صفائی سب کام تمھیں۔۔۔۔۔۔۔


کیا کیا ماما اس نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا کیا ان کے ملازم نہیں کرتے یہ سارے کام۔ میں نے تو ادھر ملازموں کو کام کرتے دیکھا ہے۔


ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ملازم خود نہیں کرتے ان سے کروایا جاتا ہے جتنا ان کو بتاو وہ اتنا ہی کرتے ہیں فالتو کام کرنے کی ان کو جرات نہیں ہوتی۔ ضروری نہیں کہ وہ ہر کام صحیح اور وقت پر کریں کچھ کام چور بھی ہوتے ہیں کچھ سست ہوتے ہیں کچھ فراڈی سودے میں سے پیسے جھوٹ بول کر بچا لیتے ہیں دس کی چیز بارہ یا پندرہ کی بتا دی۔ کچھ چور بھی ہوتے ہیں اپنے روپے پیسے کی زیور کی اپنی چیزوں کی موبائل کی حفاظت بھی کرنی پڑتی ہے۔ وقت پر کھانا تیار کرنا پڑتا ہے۔مگر سب ایسے نہیں ہوتے اب ہماری خالہ کی ملازمہ بھی بہت اچھی ہے۔ ارشاد کے ابو کا تو پرہیزگاری کھانا پکانا پڑتا ہے۔


رباب سر پکڑ کر بولی اف یہ شادی ہے یا ایک نئی جاب۔


بہار بولی وہ عورت تو خوش نصیب ہوتی ہے جس کو یہ جاب ملتی ہے۔ جس کو کوئی لڑکا اس کا خاندان ساری زندگی کے لئے اپنا بنا کر لے جاتے ہیں اور پورے گھر کی بھاگ دوڑ اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔


رباب ہنس کر بولی اس کو تو گھر کے کاموں کے لئے بھگاتے ہی رہتے ہیں۔ اف ماما ارشاد کے گھر کو تو آپ درست دیکھ سکتی تھیں۔ اتنے میں رباب کو ارشاد کے گھر سے اس کی بھانجی کا فون آ گیا۔


وہ شوخی سے بولی ہیلو مامی۔


رباب غصے سے بولی خبردار جو مجھے بڈھوں کی طرح مامی پکارا تو ہم دوست ہی رہیں گے سمجھی۔


وہ قہقہہ لگا کر بولی اچھا میری جوان مامی۔ پھر وہ خوش ہو کر بتا نے لگی کہ نانا جی نے جب تمھیں دیکھا تو ارشاد ماموں کے لے پسند کر لیا کہنے لگے یہ بھولی سی لڑکی میرے ارشاد کے لئے اچھی رہے گی۔ مجھ سے بولے تم کیا کہتی ہو اس بارے میں۔ میں خوش ہو گئی اور کہا اچھا ہے نا میری دوست میرے پاس آ جاے گی پھر میں نے ان سے کہا کہ میرا لیپ ٹاپ خراب ہو گیا ہے اگر مجھے نیا لے کر دیں تو میں اسے منانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اور پھر میری لک کہ تم جلدی سے ہی مان گئ اور اب میں علی کے ساتھ نیا لیپ ٹاپ خریدنے جا رہی ہوں یہ راز کسی کو نہیں پتا سمجھی۔


رباب بولی مجھے پہلے پتا ہوتا تو میں بھی ہاف پر ڈیل کرتی۔ تو بہت چالاک ہے۔


دوست مسکرا کر بولی اب کیا ہو سکتا ہے اب تو یہ ڈیل فل میری ہی ہے ہاہاہا وہ قہقہہ لگا کر باے بول کر فون بند کر گئی۔


رباب کو بہار نے چاے کے لیے آواز دی۔


شمیم کا فون آیا کہ وہ خالہ کے پاس رشتہ لینے کے لئے کل آ رہی ہے۔


خالہ جو یہ سن کر پہلے ہی پریشان تھی کہ رباب کا رشتہ ایک شادی شدہ مرد سے رباب کی مرضی سے ہو رہا ہے اور بہار ادھر ہاں بول آئی ہے اور وہ لوگ دھوم دھڑکے سے شادی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔


خالہ کے دونوں بیٹوں نے فون کیا کہ وہ جلد ہی پاکستان اپنی فیملیز کے ساتھ آنے والے ہیں امریکہ میں وہ اب خوش نہیں ہیں اس لئے سب کچھ سمیٹ کر پاکستان آ رہے ہیں۔ اپنے ملک کی بات ہی اور ہے اور اپنوں کا قرب سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت دولت سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بچے اپنی دادی کی گود کی گرمی اور شفقت سے محروم نہ رہ جاہیں۔ انہوں نے فوری طور پر کرایہ داروں کو نکالنے کا آرڈر دے دیا اور ایک پورشن ایک بھائی کے لئے اور دوسرا دوسرے کے لے مختص کر دیا۔


خالہ کے کرایہ دار جلد ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ بہار اب پریشان ہونے لگی کہ وہ اب کہاں جائے گی۔


شمیم نے آ کر خالہ سے رشتے کی بات کی تو اس نے کہا کہ میرے بیٹے آنے والے ہیں آپ لوگ شادی کی تیاریاں جاری رکھو شادی کی ڈیٹ بچوں کے آنے پر فکس ہو گی۔


بہار سوچنے لگی کہ رباب کی شادی کے بعد وہ کیا کرے گی کدھر جاے گی اس گھر میں تو اس کے لیے جگہ نہیں بچے گی۔ ان کے بچے بھی ہیں۔ اور فالتو کمرہ بھی نہیں ہے۔ اس نے ہلکہ سا زکر خالہ سے کیا کہ وہ ان کے بچوں کے آنے کے بعد کسی اور جگہ رہ لے گی تو خالہ نے ڈانٹ دیا تھا کہ ایسا مت سوچنا مگر وہ جانتی تھی کہ ان کی بہوؤں کے آگے خالہ بھی بےبس ہو جاہیں گی۔


اس کے اور ارشاد کے پیار کے بارے میں سواے شمیم کے کسی کو پتا نہ تھا اس نے شمیم کو سختی سے اس بات کو راز میں رکھنے کا بولا تھا وہ شادی کے بعد بیٹی کو اپنے اور ارشاد کے بارے میں جان کر بیٹی کو اپنے آپ سے بدگمان نہیں کرنا چاہتی تھی۔


شمیم نے بھی وعدہ کیا کہ وہ ایسا کچھ بتا کر بھائی کے گھر کو خراب نہیں کر سکتی۔


بہار کو فون آیا کہ ارشاد کی بیٹی فوت ہو گئ ہے۔


بہار اسی وقت رباب کو لے کر اوبر میں بیٹھ کر ارشاد کے گھر پہنچی۔ سب گھر والے اس کی ڈیڈ باڈی کے قریب خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ شمیم آنسو بہا رہی تھی جبکہ ارشاد بری طرح رو رہا تھا۔ دونوں ماں بیٹی خاموشی سے شمیم کے قریب بیٹھ گئیں۔


ارشاد کے والد زرا فاصلے پر کرسی ڈالے سنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد بہار نے رباب کے کان میں پانی لانے کا کہا وہ حیران ہو کر دیکھنے لگی تو بہار نے اسے کچن کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔


رباب کچن میں گئ تو علی نان والا شاپر لے کر کچن میں انٹر ہوا رباب پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے دیکھا کچن میں کوئی نہیں ہے تو جھٹ رباب سے بولا پلیز رباب ابھی بھی کچھ نہیں ہوا تم مان جاو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔


رباب نے اسے ڈانٹ دیا اور غصے سے بولی میرا پیچھا چھوڑ دو وہ بولا جب تک تم ماموں کے نکاح میں نہیں جاتی میں آخری لمحے تک تمھارا پیچھا کرتا رہوں گا۔


وہ ہوؤں کہہ کر گلاس اٹھا کر باہر چل پڑی اور ماں کی طرف گلاس بڑھایا تو ماں نے اسے ارشاد کو دینے کا کہا وہ گلاس ارشاد کے قریب لے کر گی اور بولی پانی پی لیجیے اس نے روتی ہوئی سرخ آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور ایک ہی سانس میں پانی پی کر گلاس اسے پکڑا دیا۔


اتنے میں جنازہ اٹھانے کا وقت آ گیا اور ارشاد تڑپ تڑپ کر رونے اور میری گڑیا کہہ کر پکارنے اور فریاد کرنے لگا۔


جنازہ چلا گیا اور شمیم نے ملازمہ سے کہا کہ سب مہمانوں کو کھانے کے لئے ڈراہنگ روم میں لے جاو کیونکہ کچھ مہمان اور آس پڑوس کی عورتیں جانے لگی تھیں۔


ارشاد کے والد نے شمیم سے کہا کہ کسی کو کھانا کھلاے بغیر نہ جانے دینا اور وہ عورتوں کو اصرار کر کے کھانے پر روکنے لگی۔


بہار نے رباب کو ساتھ کچن میں آنے کا بولا اور کھانا ڈالنے اور سرو کرنے میں ملازمہ کی مدد کرنے لگی۔


ارشاد کے والد کچن کے دروازے تک آے تو بہار کو کام مگن پایا۔


وہ دیکھ کر واپس چلے گئے۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہق، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


ناول نگار عابدہ زی شیریں


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.