بچھڑے پیار کی آمد 14
Episode 14
ڈاکٹر صاحب خالہ کو ایمرجنسی لے گئے۔
سب ویٹنگ روم میں پریشان بیٹھے ہوئے تھے۔ علی رباب کو زبردستی جوس پلانے اور ساتھ کیک کھانے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ رات پڑ چکی تھی۔
بہار کو ارشاد قریب بیٹھ کر تسلیاں دے رہا تھا جو بری طرح رو رو کر کہہ رہی تھی کہ میرا خالہ کے بغیر اس دنیا میں کون ہے۔ ہم ماں بیٹی کو ان کے دم سے بہت سہارا ملا ہوا ہے۔
ارشاد نے اس سے کہا کہ میں ہوں میرے گھر والے، میری آپا شمیم ہم سب تمھارے ہیں۔ فکر نہ کرو خالہ کو کچھ نہیں ہو گا انشاءاللہ۔ اگر خدانخواستہ کچھ ہو بھی گیا تو میں نے تمھاری اور رباب کی سرپرستی کی زمہ داری ہمیشہ اٹھانی ہے چاہے اس کے لئے تم رازی ہو یا نہ ہو۔ تم ہمیشہ ہمارے ساتھ رہو گی۔
بہار نے اسے شکوہ بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ میں بھلا بیٹی کے گھر وہ بھی تمھاری موجودگی میں ساتھ رہ سکتی ہوں بھلا۔ میری بیٹی کا گھر بستا رہے میں اس میں نہیں آ سکتی۔
ارشاد نے کہا چھوڑو یہ بعد کی باتیں ہیں پہلے تم کچھ کھا پی لو اور اپنے آپ کو بیمار کر لو گی تو خالہ کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ رباب اور علی سامنے ہی بیٹھے ان کی بےتکلفانہ گفتگو سن کر حیران ہو رہے تھے۔
رباب علی سے سرگوشی میں کہہ رہی تھی کہ ماما ارشاد کو تم کہہ کر بلا رہی ہیں اور وہ بھی ایسے ہی بلا رہے ہیں۔
علی بولا مجھے تو دونوں کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر خوشی مل رہی ہے۔ دونوں کتنے اچھے لگ رہے ہیں دونوں کی جوڑی بھی مناسب ہے۔ بس تم کنارہ کر لو۔
رباب خاموش ہو گئی اس کے کانوں میں ماں کی وارننگ یاد آنے لگی کہ کیسے ماما نے اس کو کہا تھا کہ پہلے اچھی طرح کچھ دن سوچ لو پھر فیصلہ کرنا۔ جلدی نہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تمھیں بعد میں پچھتانا پڑے۔ مگر اس وقت اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا بس جوش چڑھا تھا کہ ارشاد کا رشتہ ہاتھ سے نکل نہ جائے ان کا بڑا سا خوبصورت گھر اسے بہت بھایا تھا۔ جب اس نے ماں کو ہر طرح سے یقین دلایا کہ وہ کھبی پیچھے نہیں ہٹے گی نہ ہی پچھتائے گی
آپ کے فیصلے کی آپ کی عزت کی لاج رکھے گی۔
بہار نے پھر اسے سمجھانا چاہا کہ چلو کم از کم آج رات سوچ لو صبح فیصلہ کر لینا ایسا نہ ہو کہ میری عزت تم خاک میں ملا دو۔ بہار روتے ہوئے بولی دیکھو مجھے زلیل اور شرمندہ نہ کرنا۔ اچھی طرح سوچ لو۔
رباب نے بہت جوش سے بہار کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ماما دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے میں کھبی اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گی آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں۔
اب وہ ارشاد کی لٹی حالت سفید بے ترتیب بال دیکھ کر پریشان ہونے لگی۔ رباب کو وہ اب بوڑھا لگنے لگا تھا۔ اس نے پاس کھڑے علی کی طرف دیکھا جو جوان اور ہینڈسم تھا کوئی بھی لڑکی اس کا ساتھ پا کر اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کر سکتی تھی۔ وہ دل میں پچھتانے لگی اور ارشاد کو دیکھ کر سوچنے لگی یہ تو ماما کے ساتھ سوٹ کرتے ہیں۔ مجھے کیا ہو گیا تھا کتنا سب نے سمجھایا۔ ماما نے سوچنے کا بھی بولا مگر مجھ کم عقل کو عقل نہ آئی۔ اب میں اپنی دکھی ماما کو مزید دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
ڈاکٹر صاحب نے باہر آ کر بتایا کہ وہ اب ہوش میں آ چکی ہیں فکر کی کوئی بات نہیں ہے پاوں کی ہڈی بچ گئ ہے صرف گوشت پھٹ گیا ہے چند دن کی احتیاط سے جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔وہ خوف سے بھی بے ہوش ہوگئی تھی۔
بہار نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور ڈاکٹر صاحب کی اجازت لے کر خالہ کے پاس دوڑی چلی گئی۔
سب روم میں آ گئے کیونکہ خالہ کو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔
بہار خالہ کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی تھی۔ خالہ اسے نقاہت سے تسلیاں دے رہی تھی رباب بھی ماں کو چپ کروا رہی تھی۔ خالہ کا بڑا بیٹا شبیر کام بھائی کے سپرد کر کے ایمرجنسی میں فوراً پہلی فلاہیٹ سے آ گیا۔
علی نے خالہ کا حال احوال پوچھا اور کہا کہ وہ شبیر بھائی کو لینے ایر پورٹ جا رہا ہے۔
خالہ بیٹے کی آمد کا سن کر خوش ہو گئ۔
علی شبیر بھائی کو لینے چلا گیا۔
رباب کی حالت بھی خراب تھی رونے لگی اور ہاتھ پکڑ کر بولی نانو جی آپ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے آپ کے بغیر ہم کیا کریں گے ہم اکیلے ہو جاہیں گے۔
علی جاتے جاتے واپس آ گیا اور بہار سے بولا میں رباب کو بھی لے جارہا ہوں زرا باہر نکلے گی بہتر ہو جائے گی کچھ کھلا بھی دوں گا اسے۔
ارشاد نے کہا ہاں لے جاو اچھا ہے بچی خوش ہو جائے گی۔ بہار نے کہا ٹھیک ہے۔
رباب اس کے بچی کہنے پر حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
علی نے فرنٹ ڈور کا دروازہ کھول کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے کہا میں پیچھے بیٹھوں گی۔
علی نے کہا مجھے ڈرائیور بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
اتنے میں قریب ہی گاڑی رکی اور شمیم اور ارشاد کے ابو اترے۔
شمیم کو علی بہار کی خالہ کی اپڈیٹ دے چکا تھا اس نے کہا جلدی جاو فلائیٹ کا آنے کا ٹائم ہو رہا ہے۔
علی نے ماں کو شکوہ کیا کہ اسے کہیں آگے بیٹھے۔
شمیم نے کہا چندہ آگے بیٹھو شاباش جلدی کرو لیٹ ہو رہے ہو۔
وہ جھٹ بیٹھ گئ۔
علی نے مسکرا کر گاڑی اسٹارٹ کی۔
ارشاد کے ابو نے گھور کر شمیم کو دیکھا۔
شمیم نظرانداز کر کے آگے چل پڑی۔
جب وہ لوگ روم میں پہنچے تو ارشاد اصرار کر کے پاس بیٹھا بہار کو جوس اور کیک کھلا رہا تھا اور وہ بس بس کر رہی تھی۔
ارشاد کے ابو کو دیکھ کر بہار کھاتے کھاتے کنفیوز سی ہو گئی اور کیک گلے میں پھنس گیا۔
ارشاد نے سب کی پرواہ کیے بغیر اس کو زبردستی جوس پلایا اور پریشانی سے بولا تم بیٹھ جاو جو ارشاد کے ابو اور شمیم سے ملنے کھڑی ہو گئی تھی۔
شمیم بھی پاس آ گئ اور اس کو بازو سے پکڑ کر بولی تم شاباش آرام سے بیٹھو اور سکون کرو۔ دیکھو تو رو رو کر اپنی حالت خراب کر لی ہے۔
بہار کا گلہ بند ہونے کی وجہ سے بمشکل اس نے ارشاد کے ابو کو سلام کیا۔
وہ جواب میں ہونٹ ہلا کر رہ گئے۔اور سنجیدہ سے بیٹھ گئے اور اس کی خالہ سے بولے بہن جی آپ ٹھیک ہیں۔
خالہ اہستہ سے بولی ٹھیک ہوں آپ لوگوں کو زحمت دی۔
شمیم بولی نہیں خالہ جی آپ ہماری بزرگ ہیں۔ اب ہم ایک ہی خاندان ہیں۔
ارشاد پھر بہار کے پاس جا کر بولا اب ٹھیک ہو کیا۔
ارشاد کے ابو نے اسے خوفناک نظروں سے دیکھا مگر وہ اگنور کر کے پھر بہار سے بولا یہ جوس اور کیک تم نے ختم کرنا ہے سمجھی۔
وہ کنفیوز ہونے لگی کیونکہ نانا کی گھورتی نظریں ان دونوں پر جمی ہوئی تھیں۔
بہار نہ نہ کر رہی تھی مگر ارشاد کے اصرار اور کچھ نانا کی نظروں کے خوف سے وہ جلدی سے کھانے لگی۔
اتنے میں نرس خالہ کو انجکشن لگانے آ گئی تو بہار خالہ کے قریب جانے لگی تو ارشاد نے کہا بہار تم میرے ساتھ باہر چلو زرا تازہ ہوا کا چکر لگانے۔ آپا آپ زرا خالہ کو اٹینڈ کریں میں زرا بہار کو باہر لے کر جا رہا ہوں۔
بہار نے انکار کیا تو ارشاد نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ چلو جلدی۔
شمیم نے کہا بہار ارشاد ٹھیک کہہ رہا ہے تم زرا باہر ہو آو دیکھو کیا حالت کر لی ہے اپنی۔
بہار مجبور ہو کر چل پڑی۔
وہ دونوں باہر نکلے ہی تھے کہ ارشاد کے ابو بھی پیچھے باہر آ گئے۔
ارشاد کو احساس تھا کہ وہ باپ کو تپ چڑھا رہا ہے۔ مگر وہ اپنی دھن میں مگن رہا اور بہار کو کار پارکنگ کی طرف لے جاکر گاڑی کا لاک کھول کر فرنٹ ڈور کھول کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
بہار ارشاد کے اس دھونس والے رویے پر حیران و پریشان ہو رہی تھی تقریباً روندھی ہوئی آواز میں بولی ارشاد تمھیں ایک دم سے کیا ہو گیا ہے تم میرے ساتھ اتنے فرینک کیوں ہو رہے ہو ہمیں تو فاصلے میں رہنا چاہیے ہمارے رشتے کی نوعیت نازک ہے۔ تم میری بیٹی کے۔۔۔۔۔
ارشاد اچھا ساری باتیں گاڑی میں بیٹھ کر کرنا۔
وہ مجبور ہو کر بیٹھ گئ۔ ا
ارشاد نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
بہار نے اس سے روہانسی ہو کر پوچھا آخر ہم کہاں جا رہے ہیں۔اور تم کیوں میرا تماشا بنا رہے ہو میری بیٹی کیا سوچے گی۔
ارشاد نے کہا کہ ہم کافی ہاوس جا رہے ہیں کافی پی کر تمھارا سر درد بھی کم ہو جائے گا اور ہم کھل کر ساری باتیں بھی کلیر کر لیں گے۔
علی شبیر کو لے کر واپس آ رہا تھا کہ گاڑی سے اتر رہے تھے کہ ارشاد کی گاڑی ان کے قریب آ کر رکی۔
بہار ارشاد کے ساتھ آگے سے اتری شبیر پر نظر پڑی اور اسے سخت شرمندگی کا احساس ہوا۔
شبیر بھائی آگے بڑھ کر اسے پیار سے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے کیسی ہے میری اچھی بہنا۔
ان کے اس طرح کے رویے سے بہار کو کچھ سکون ملا۔
وہ ارشاد سے بھی بڑے تپاک سے ملے سامنے نانا ٹہل رہے تھے ارشاد کو یقین تھا کہ وہ اسی کا انتظار کر رہے ہیں وہ آگے بڑھا اور باپ سے بولا اباجی آپ ادھر کیا کر رہے ہیں پھر شبیر کو مخاطب کر کے بولا شبیر بھائی یہ میرے والد صاحب ہیں وہ آگے بڑھ کر عزت سے ملا وہ جواب دیے بغیر سپاٹ طریقے سے ملے۔رباب ماں کو ارشاد کے ساتھ گاڑی سے اترتے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ خاموشی سے ماں کے پیچھے چل پڑی۔ بہار نے اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کھوئی سی ہے۔ رباب بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑی۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.