Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 15

Episode 15

شبیر کو دیکھ کر ماں رونے لگی اور وہ بھی رونے لگا۔ ماں کو تسلیاں دیتے ہوئے بولا اماں جان اب میں آپ سے کھبی دور نہیں جاوں گا کیا فائدہ ایسے پیسے کا جس کی وجہ سے ماں کو جدائی کے غم کے سمندر میں دھکیل دیں۔ میں نے ادھر کھبی بھی ایک دن بھی سکون محسوس نہیں کیا۔ آپ نے ہی مجھے بھیجا تھا پر آپ کو کیا فائدہ ملا نہ بیٹے نظروں کے سامنے نہ پوتے پوتیوں کو اپنی محبت کی گود نصیب ہوئی۔ اب شکر ہے کہ میں آپ کی قربت کو پا سکا ہوں۔ شکر ہے آپ کی زندگی میں ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ اپنے ملک کی عزت کی روکھی سوکھی باہر کی تر نوالے کی زلت سے کہیں بہتر ہے۔ جہاں نہ عزت ملتی ہے نہ ہی سکون بس مشینی زندگی کسی اپنے کے ساتھ فالتو وقت گزارنے کا بھی ہوش نہیں ہوتا۔


دو دن خالہ ہاسپٹل میں رہی ان کے پاس بہار رہی دن رات ان کی پٹی سے لگی رہی۔ ادھر ہی کرسی پر اونگھ لے لیتی۔ ارشاد اس کو زبردستی کھلاتا۔ سب ملنے آتے اور بہار پر حیران ہوتے جو خالہ کی سگی اولاد کی طرح خدمت کرتی رہی۔ رباب اور شبیر کو ارشاد اپنے گھر لے گیا۔ شمیم بھی باپ کے گھر رہی اور رباب کو اپنے پاس سلا لیا۔ شبیر کو الگ کمرہ دیا علی کو اس کی خدمت پر مامور کر دیا کیونکہ بہار کے گھر میں کوئی نہ تھا۔


علی تو رباب کے رہنے سے خوشی سے پاگل ہو رہا تھا اس کی ماں باپ بھی شبیر سے ملنے آئے اور دیر تک محفل جمی رہی۔ شبیر اور ارشاد کی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گی۔ ان کی باتیں بزنس کے مطلق بھی ایک جیسے خیالات کی تھیں۔ رباب کچن میں شمیم کی ہیلپ کرتی۔


چاے بنانا اسی کی زمہ داری بن گیا شبیر سے بیٹا کہہ کر کھبی گڑیا کہہ کر پکارتا۔ ارشاد نے بھی اسے کئی بار گڑیا پکارا وہ حیران ہوئی۔ علی کی رباب میں دلچسپی شبیر نے بھی محسوس کر لی۔


علی روز اسے شام کو بہار سے ملانے اور نانی کے لئے سوپ وغیرہ دینے جاتا۔ دونوں اب گپ شپ بھی لگاتے ان کی دوستی بھی ہو چکی تھی۔


رباب کی فرینڈز ہاسپٹل آہیں تو علی اور رباب کی دوستی دیکھ کر خوش ہوہیں۔ انہوں نے شبیر کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ساری بات سن کر بولا جس کام کو آپ لوگ آسان سمجھ رہی ہیں وہ کافی مشکل عمل ہے۔


میں نے ارشاد کے والد محترم کے ساتھ وقت گزارا ہے مجھے وہ انتہائی ضدی اور اناء پرست لگے ہیں اگر اس شادی میں بہتری نہ بھی نظر آتی ہو پھر بھی وہ اپنی بات کے بھرم کی خاطر اس میں ڈٹے رہیں گے۔


رباب کی فرینڈز اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولیں مگر ہم شادی کے آخری لمحے تک کوشش کرتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کامیابی حاصل ہو گی انشاءاللہ۔


خالہ کو ہاسپٹل سے گھر بھیج دیا گیا اور سب گھر آئے تو بہار تھکن سے چور ہونے کے باوجود کام میں لگ گئ۔ شبیر نے ڈاکٹر صاحب کے توسط سے ایک نرس کا انتظام کر دیا اور کھانا باہر سے آرڈر کرنے لگا۔ اس نے بہار کو کہا کہ بہار بہن آپ اب مکمل آرام کریں۔ رباب نے بھی ماں کو حیران کر دیا جب وہ سب مہمانوں کو چاے بنا کر پلاتی برتن سمیٹتی۔ سارے گھر کو اچھی طرح سنبھال لیا تھا۔ کام والی ماسی بھی واپس آ چکی تھی اس کے ساتھ ملکر کام کرواتی۔ بہار کو کوئی کام نہ کرنے دیتی اس کی خدمت کرتی اور کھانا اس کو بیڈ پر دیتی۔ ساتھ میں شبیر اور نانی کا بھی خیال رکھتی۔ شبیر اس سے بہت خوش تھا۔ اس نے رباب کو نیا موبائل خرید کر گفٹ کیا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔


نانا جان نے آج شبیر کو شادی کی بابت بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔


خالہ اب بلکل ٹھیک ہو چکی تھی۔


نرس جا چکی تھی۔


خالہ کے باقی بچے وغیرہ بھی باہر سے آ چکے تھے گھر میں خوب رونق لگ چکی تھی۔


خالہ کے پوتے پوتی سب رباب کے دوست بن چکے تھے۔ جو رباب کے ہم عمر تھے۔


ہدایت کی مامی اور اس کے بیٹوں کو خالہ کا پتا چلا تو وہ گھر دیکھنے آ گئے۔


بہار نے خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا۔ رباب ان سب سے مل کر بہت خوش ہوئی کیونکہ اس کا بچپن ان لوگوں کے ساتھ گزرا تھا۔


مامی رباب کو بہت پیار سے ملی۔ بہار سے کہنے لگی بیٹی معزرت چاہتی ہوں تم لوگوں سے اتنا عرصہ دور رہے مگر اب نہیں۔ تم اور رباب اب ہمارے ساتھ گھر چلو گی اور رباب کی شادی اور رخصتی اس گھر سے ہو گی آخر وہ ادھر پلی بڑھی ہے اس کا میکہ ہے۔ مجھے اپنی زیادتی کا احساس ہے میں تم لوگوں سے معافی مانگتی ہوں۔ اور شبیر بیٹے اور آپ کی خالہ سے یہاں سے تم لوگوں کو لے جانے کی اجازت چاہتی ہوں۔


بہار نے مامی کے ہاتھ پکڑ کر کہا پلیز آپ بار بار معزرت نہ کریں آپ ہماری بزرگ ہیں۔


خالہ نے کہا کہ ویسے تو میںرا دل نہیں چاہتا کہ بہار جائے مگر آپ اتنے مان سے کہہ رہی ہیں تو میں منع نہیں کروں گی اب بہار کی مرضی ہے جائے یا نہ جائے۔ کیونکہ یہ اس کا میکہ ہے اور وہ سسرال۔ دونوں گھر اس کے اپنے ہیں جہاں مرضی رہے۔


شبیر نے کہا کہ وہ بھی اپنی امی جان کے فیصلے سے متفق ہے۔ بہار کی جو مرضی ہے وہ کرے۔


بہار نے کہا کہ مامی اتنے مان سے مجھے لینے آئی ہیں تو میں ضرور چلوں گی اور خالہ سے بھی گاہے بگاہے ملنے آتے رہیں گے۔


مامی نے بڑھکر بہار کو گلے لگا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر تم جانے سے انکار کرتی تو میں بچوں کے آگے بری بنتی کہ بہار نے آپ کو معاف نہیں کیا مگر تم نے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر کے مجھے بچوں کے آگے سرخرو کردیا ہے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ میں بہار اور رباب کو لے کر آوں گی تم لوگوں کا پورشن ابھی تک خالی پڑا ہے اس کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آئی۔ گھر جو اتنا بڑا ہے۔


بہار کا اور رباب کا مامی کے گھر شاندار استقبال کیا گیا۔ بہار اپنے رب کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس نے اس کو بے گھر ہونے سے بچا لیا۔ کیونکہ خالہ کے گھر میں اس کی اور رباب کی جگہ نہ بچی تھی خالہ کے کمرے میں ایک گدا ان کے بیڈ کے نیچے صبح رکھ دیا جاتا اور رات کو نکال لیا جاتا دونوں اس پر سوتیں۔


خالہ کی چھوٹی بہو نے اب اکثر بہار سے اکتاہٹ اور جگہ کی کمی کا رونا بھی رویا تھا وہ اس گھر پر حق جتاتی۔ بہار کی اہمیت اب ایک فالتو سامان جیسی ہو چکی تھی۔ کوئی جگہ نظر نہ آتی جہاں وہ جا کر رہ سکے۔ رباب اس سے اکثر پوچھتی ماما اب ہم کدھر جائیں گے میری شادی ہو گئی تو مجھے تو ٹھکانہ مل جائے گا آپ کا کیا ہوگا۔ ایسا کریں آپ بھی شادی کر لیں ابھی تو آپ جوان ہیں یا پھر میرے ساتھ رہنے پر آمادہ ہو جاہیں۔


بہار جواب دیتی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے جس نے اس مشکل میں ڈالا ہے وہی اس سے نکالے گا بھی۔ بس خدا پر بھروسہ اور مشکل وقت میں صبر سے کام لو تو جلد انسان اس مشکل سے نکل بھی آتا ہے بلکہ اس کو اس سے بھی اچھا صلہ ملتا ہے۔


اب مامی کے گھر میں رہتے ہوئے اسے اچھا لگ رہا تھا کیونکہ مامی اسے زیادہ وقت اپنے ساتھ رکھتی پیار سے ساتھ اکھٹی کھانا کھاتیں۔ رباب کی مامی کے پوتے پوتی سے دوستی ہو گئی۔ مامی کے ایک پوتے کو شبیر کی بیٹی پسند آ گئ۔


شبیر کے بھی مامی کے بیٹے سے اچھے مراسم ہو گئے۔ شبیر کے گھر والوں کی مامی نے دعوت کی تو وہ لوگ بھی مامی کا بڑا گھر اور نوکر چاکر ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر متاثر ہوئے ان کو بھی ادھر بیٹی کا رشتہ دینے کا لالچ آ گیا اور وہ ان سب سے تعلقات استوار کرنے لگے۔


مامی کی بڑی بہو کو بھی بیٹے کی پسند پر کوئی اعتراض نہ تھا اور بہار کو وہاں شہزادیوں کی طرح رہتے دیکھ کر خالہ بہت خوش ہوئی۔


مامی بہار کو اب بیٹی مانتی تھی اور رباب بھی اسے دادو پکارتی تھی اسے اب رباب پر بھی پیار آتا تھا جو اس کے سامنے پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی۔


رباب کا بچپن وہاں گزرا تھا لان میں لگا جھولا اسے بچپن کی یاد دلاتا جب وہ مامی کی ڈانٹ پھٹکار سے اداس ہوتی تو موقع ملتے ہی جھولے پر آ جاتی اور جھولا جھولتے ہوئے اپنے اللہ تعالیٰ سے ماں کو مانگتی۔ پھر بہار کی صورت میں اس کی دعا قبول ہو گئ وہ بہت خوش ہوئی مگر بہار نے اس کو اپنی ماں کا بھی احساس دلایا کہ وہ ان کے ایصال ثواب کے لئے دعائے مغفرت کرتی رہے۔


بہار اس کی ماں اور باپ کی برسی پر حسبِ توفیق خیرات کرتی ان کے ایصال ثواب کا احتمام کرتی۔


مامی نے شبیر کی بیٹی کا رشتہ اپنے پوتے کے لئے مانگ لیا اور سادگی سے دونوں فیملیز میں رشتہ طے پا گیا۔ اس کی باقاعدہ منگنی اور شادی رباب کی شادی کے بعد طے پائی۔


مامی نے شبیر سے کہا کہ ہم ملکر رباب کی شادی کو سرانجام دیں گے ویسے تو اس نے خود آفر کی تھی کہ وہ بہار کی شادی کرے گا مگر مامی نہ مانی اور کہا کہ تم بھی اس کے ماموں ہو اس لیے تمھیں بھی حق ہے۔


شبیر اور مامی کا بڑا بیٹا جو اب شبیر کی بیٹی کا ہونے والا سسر بھی تھا دونوں میں اور ارشاد میں اچھی علیک سلیک ہو گئ۔ انہوں نے ارشاد سے صاف کہہ دیا کہ وہ رباب کی شادی تم سے نہیں کر سکتے۔مگر بہار نہ مانی۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.