بچھڑے پیار کی آمد 4
Episode 4
جب کلرک صاحب نے بتایا کہ وہ اس کا باپ ہے۔ ارشاد نے معزرت کرتے ہوئے سر کھجاتے ہوئے کہا کہ سر مجھے معلوم نہ تھا۔ چلیں اچھا ہے پھر اس نے ساری تفصیل اس کے گوش گزار کر دی۔
کلرک صاحب کے زہن میں اس ماں بیٹی کی بات یاد آ گئی جب وہ ماں کو بتا رہی تھی کہ ایک لڑکی نے بوتل پکڑا دی تھی پھر ایک دن وہ اس بوتل کو بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی باپ سمجھ گیا کہ بیٹی کے دل میں بھی اس کے لیے جگہ ہے۔ باپ نے ایک سرد آہ بھر کر اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ دیکھو برخوردار وہ ایک کلرک صاحب کی بیٹی ہے۔ اس سے تم ہماری حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہو۔
ارشاد نے جھٹ کہا نو سر میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔
کلرک صاحب نے تیزی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تمھیں نہ سہی تمھارے گھر والوں کو۔۔۔
ارشاد نے جلدی سے کہا نو سر میرے گھر والے ایسے نہیں نہ ہی ہماری کوئی ڈیمانڈ ہے۔
کلرک صاحب نے کہا اس بات کا ثبوت تو تب ملے گا ناں جب وہ لوگ بھی آ کر اس قسم کے خیالات کا اظہار کریں گے۔
ارشاد نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنے والدین کو آپ کے گھر بھیجے گا آپ لوگ میرا انتظار کرنا بس امتحانات سے فارغ ہو جاوں تو۔ آپ پلیز مجھے اپنے گھر کا ایڈریس دے دیں۔
کلرک صاحب نے کہا کہ وہ بیوی سے مشورہ کر کے چند دن تک بتا دیں گے۔
ارشاد نے کہا کہ سر کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ میرے گھر کا ایڈریس نوٹ کر لیں میرا فون نمبر لے لیں میرے بارے میں کالج میں جہاں سے مرضی انکوائری کروا لیں یہ آپ کا حق ہے۔ پھر اس نے فون نمبر اور گھر کا ایڈریس نوٹ کروایا۔ اور خوشی خوشی خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔
کلرک صاحب دل میں خوش ہونے لگے کہ اتنا ہینڈسم سا لڑکا ان کی بیٹی کے لئے رشتہ مانگ رہا ہے۔
کالج کے گیٹ پر چھپ کر انتظار کرتے ہوئے ارشاد نے دیکھا کہ بہار کلرک صاحب کے ساتھ ان کی باہک پر بیٹھ رہی ہے۔
ارشاد کو یقین ہو گیا کہ وہ اس کی ہی بیٹی ہے ورنہ وہ اپنی جلدبازی پر پچھتا رہا تھا کہ کالج میں کوئی ایک بہار نام کی لڑکی نہ ہو گی کیا۔
کلرک صاحب گھر پہنچے تو کھانا کھانے کے دوران ان کی بیوی نے بتایا کہ بہار کے لئے ایک اچھا رشتہ آیا ہے۔ ان کی جہیز کی بھی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔
کلرک صاحب نے سوچا ابھی ارشاد کے رشتے کا زکر نہ کریں پہلے آنے دیں پھر دیکھتے ہیں۔ کون سا ہم نے اس رشتے کے لئے بھی ہاں کر دی ہے۔
بیوی نے خود ہی تفصیل بتانی شروع کر دی کہ وہ آپ کے کالج میں پڑھاتا ہے۔ اس نے کالج میں بہار کو دیکھا اور پسند کر لیا۔
بہار اندر کسی کام سے آنے لگی تھی تو اس نے سن کہ بہار کو اس نے دیکھا اور پسند کر لیا وہ حیران ہونے لگی کہ ارشاد نے اتنی جلدی رشتہ بھیج بھی دیا۔
بہار کو اندر آتے دیکھ کر باپ نے آواز دی کہ پہلے بیٹی کی مرضی تو پوچھ لو۔
ماں نے غصے سے کہا کہ ہماری کس نے مرضی پوچھی تھی۔
باپ نے کہا کہ بیگم وہ زمانہ اور تھا۔
ماں نے حتمی فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کو کیا پتا کہ اچھا برا کیا ہے اسی لے میں اسے کالج نہیں پڑھانا چاہتی تھی کہ لڑکی پھر کسی رشتے کو خاطر میں نہیں لاے گی ارے غریبوں کے گھر آتا کون ہے۔ شکر کریں جو اتنا اچھا رشتہ آیا ہے۔ اگر اس نے ہمارے پسند کیے رشتے سے انکار کیا تو اس کی پڑھائی آج سے ختم۔ ارے وہ تو اتنے اچھے لوگ ہیں وہ کہتے ہیں بےشک نوکری بھی کرے۔
بہار نے کہا کہ امی جان مجھے آپ کی پسند پر کھبی کوئی اعتراض نہ ہو گا آپ سے زیادہ میرا بھلا کون سوچ سکتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر ہے نکل گئی۔
ماں نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ اب اگلی بار میں ان لوگوں کو ہاں بول دوں گی۔
شوہر نے کہا بغیر دیکھے کوئی ہاں بولتا ہے کیا۔
بیوی صفائی دیتے ہوئے بولی کہ میرا مطلب ہے کہ دیکھنے جاہیں گے تو اچھا لگا تو ہاں بول دیں گے ارے وہ اسی کالج میں پڑھاتا ہے ناں کیا نام بتایا تھا اس کی ماں نے وہ سوچتے ہوئے بولی۔۔ پھر سوچ کر بولی مجھے اب یاد نہیں آ رہا۔
شوہر بولا پڑھتا ہے یا پڑھاتا ہے۔
بیوی لاپروائی سے بولی مجھے نہیں پتا پرسوں اتوار ہے ان لوگوں نے گھر بلایا ہے۔
شوہر نے کہا کہ تم نے پوچھے بغیر ہاں بول دی۔
ارے ابھی کہاں ہاں بولی ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا اچھا رشتہ ہے جا کر اچھا لگا تو ہاں کر دوں گی ان لوگوں کو جلدی ہے۔ اس کے اور بھی رشتے آ رہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ دیکھیں ناں کتنا کچھ لاے ہیں پھل فروٹ کیک وغیرہ ان کے قیمتی لباس ہی دیکھ کر میں متاثر ہو گئی ہماری بیٹی ہماری طرح معاشی مسئلے کا شکار نہیں ہو گی خوب عیش کرے گی جن چیزوں کے لئے ترستی ہے وہ بھی لے سکے گی ماں نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔ شوہر نے سمجھاتے ہوئے کہا کہ دنیا مطلب کی ہے اگر ان کو اچھے رشتے مل رہے ہیں تو ادھر کیوں آئے تم ظاہری چیزوں کو نہ دیکھا کرو اندر سے کچھ باہر سے کچھ ہوتے ہیں۔ مجھے پہلے ان کے بارے میں چھان بین کرنے دو اگر پسند بھی آ جاہیں تو اسی وقت ہاں نہیں بولنا اپنی کچھ عزت بھی رکھنی ہے۔ پھر انہیں ہماری بیٹی میں ایسا کیا نظر آیا ہے۔
بیوی نے خوش ہوتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کو پسند ہے۔
بہار نے جاتے جات سنا تو وہ ارشاد کے خیالوں میں کھو گئ۔
پرسوں کی تیاریاں شروع تھیں ماں نے اپنی طرف سے سب سے اچھا سوٹ نکالا مگر پھر بھی اسے وہ مناسب نہ لگا شوہر کے سوٹ کا بھی یہی حال تھا ان لوگوں کا فون دو بار آ چکا تھا ان کی ماں بہار کی ماں سے بات کر رہی تھی۔
بہار کو کچھ علم نہ تھا کہ وہ ارشاد کے گھر جارہے ہیں وہ ابھی تک غلط فہمی کا شکار تھی اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔ ماں اسے خوش دیکھ کر سرگوشی کر رہی تھی کہ دیکھا بیٹی کتنی خوش ہے۔
کلرک صاحب بھی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہ ارشاد کے گھر والے ہیں یا کوئی اور ہیں۔ انہوں نے بیوی کو سختی سے ہدایت کی کہ تم نے وہاں کوئی اس سلسلے میں بات نہیں کرنی میں خود جو مناسب لگے گا کروں گا آخر میری بیٹی کے مستقبل کا سوال ہے۔ میں نہ دیکھوں تم کچھ بولی ہو جلدبازی نہیں کرنی بلکل۔ سوالی وہ لوگ ہیں ہم نہیں ہم نے عزت سے رشتہ دینا ہے سمجھی۔
دونوں مقررہ وقت پر بتاے ہوئے پتے پر باہک پر پہنچے تو گیٹ کھلا ہوا تھا پرانا علاقہ تھا مگر گھر اچھے بنے ہوئے تھے۔ پرانے اور بڑے گھر تھے۔
ایک ملازم نکلا تو کلرک صاحب نے اپنے آنے کا بتایا وہ اچھا کہہ کر تیزی سے اندر چلا گیا تھوڑی دیر بعد ان کے کالج کے ٹیچر سر ہدایت صاحب سامنے دوڑتے ہوئے آے اور بڑے ادب سے کلرک صاحب کو سر کہہ کر اندر لے گئے۔
ڈراہنگ روم میں سجاوٹ قیمتی سامان کی تھی مگر پرانے ماڈل کا تھا بڑا سا ڈراہنگ روم تھا۔ ہدایت صاحب کے ماموں اندر آے اور بڑے تپاک سے ملے۔ تھوڑی دیر بعد موٹی سی مامی اور ہدایت صاحب کی کمزور سی بیمار سی نظر آتی ماں اندر آئی۔
مامی تو زرا نخرے سے ملی اور ہدایت کی ماں اچھی طرح ملی اور بہار کی ماں کے قریب بیٹھ گئی اور مسکرا کر خوشی سے حال احوال پوچھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ہدایت صاحب بھی آ کر سامنے خاموش سے بیٹھ گئے۔
ملازم جوس لے کر آیا اور سب کو پیش کیے۔ بہار کی ماں نے قدرے شرماتے ہوئے گلاس اٹھایا جبکہ کلرک صاحب سنجیدہ شکل بنا کر بیٹھے رہے وہ ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ ارشاد کے باپ ہیں یا نہیں۔
جوس پینے کے دوران ہدایت صاحب کے ماموں نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے ہدایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کا بھانجہ ہے باپ کے مرنے کے بعد وہ بہن کو گھر لے آئے تھے بیوی نے لقمہ لگایا۔ ہم نے ہی اس کو پڑھایا لکھایا برسرروزگار کیا پھر اس کی شادی کی چودہ سال کی بیٹی ہے اس کی ایک سال ہو چکا ہے بیوی کو فوت ہوئے اس نے آپ کی بیٹی کو پسند کیا ہے اور اب اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس نے ایک سانس میں جلدی جلدی ساری تفصیل بتا دی۔
کلرک صاحب کے ہاتھ میں آدھا جوس کا گلاس پکڑا تھا لگتا تھا گلاس بہت بھاری ہو گیا ہے اور اس کا وزن ان کے بازو برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے گلاس ٹیبل پر رکھ دیا۔ ہدایت صاحب نے کہا کہ سر آپ نے جوس ختم نہیں کیا تو کلرک صاحب بولے میرا زرا گلا خراب ہے معزرت چاہتا ہوں۔۔۔
اتنے میں ایک پیاری سی معصوم سی چودہ سال کی بچی اندر آئی اور سلام کیا اور پوچھنے لگی کہ کام والی ماسی پوچھ رہی ہے کہ اب چاہے بناوں۔
کلرک صاحب نے فوراً کہا نہیں نہیں میں نے ایک فوتگی پر جانا ہے لیٹ ہو جاوں گا ادھر وعدہ کیا تھا اس لئے آنا پڑا زرا جلدی میں ہوں۔
ہدایت صاحب کا ماموں بولا پھر ہم کب آہیں رسم کرنے۔
کلرک صاحب نے کہا کہ جی میں فون پر سب بتا دوں گا ابھی اجازت دیں۔ بیوی سے مخاطب ہوے بیگم جلدی اٹھیں دیر ہو جائے گی۔
بیوی مزے دار جوس کو مزے لے کر آرام سے پی رہی تھی ایک ہی سانس میں سارا پی گئ۔
دور بیٹھی مامی دھیرے سے مسکرانے لگی۔ ہدایت کی ماں شرمندہ سی ہونے لگی۔
کلرک صاحب کی بیوی نے دیکھا وہ گھر کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں اس کی کسی بات کا جواب بھی نہیں دے رہے۔
گھر آ کر بیوی لڑنے لگی کہ یہ کیا تماشہ تھا چاے بھی نہیں پینے دی میں نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا کہ وہاں چاے کے ساتھ مزے کی چیزیں کھاوں گی آپ نے وہ بھی نہیں کھانے دی۔
کلرک صاحب غصے سے بولے تمھاری نظر میں یہ اچھا رشتہ تھا جو شادی شدہ ہے اور اس کی چودہ سال کی بیٹی ہے اور ہماری بیٹی سے کتنا بڑا ہے۔ ویسے بھی ہماری بیٹی کے لیے ایک سلجھا ہوا نوجوان ارشاد ہمارے کالج کا وہ رشتہ مانگ رہا ہے پیپروں کے بعد گھر والوں کو بھیجے گا زرا صبر کرو جب جوان اور امیر لڑکا مل رہا ہے تو اس رشتے میں دلچسپی دیکھانے کا فائدہ۔ انہیں جواب دے دو۔
بیوی بولی پہلے آپ کے اس ارشاد کا رشتہ آ جاے پھر دوں گی ایسا نہ ہو وہ بھی نہ آئے اور ہم اس رشتے کو بھی گنوا دیں۔ اور مرد کی عمر کس نے دیکھی ہے۔ ماشاءاللہ سے کالج میں پڑھاتا ہے سرکاری ملازم ہے۔ بن ماں کی بچی کو پالے گی تو ثوابِ کماے گی۔ میں تو انہیں جواب ابھی نہیں دوں گی بس۔
جاری ہے۔
پلیز اسے لاہک شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں شکریہ۔
Reader Comments
Be the first to leave a comment on this episode!
Log in to leave a comment.