Back to Novel
Bichray Pyar Ki Aamad
Episodes

بچھڑے پیار کی آمد 12

Episode 12

ویٹر آہس کریم لایا تو علی نے دو آہیس کریم فلیور جو رباب کو پسند تھے دونوں منگوا لیے اور اس کے آگے کیے۔ اپنا اور بہار کا الگ الگ فلیور منگوایا اور دونوں بہار کے سامنے رکھے اور کہا دونوں چکھیں جو اچھا لگے وہ لے لیں میں نے آپ کی بیٹی والے فلیور نہیں منگواے تاکہ یہ فلیور بھی آپ ٹیسٹ کریں تاکہ نیکسٹ ٹائم آہیں تو وہ کھاہیں۔ وہ نہ نہ کر کے چکھنے لگی۔


رباب جو بچوں کی طرح ہر چیز سے بےنیاز ہو کر مزے لے لے کر کھا رہی تھی اچانک کھاتے کھاتے پوچھنے لگی کہ کیا دوبارہ بھی؟؟؟


علی بولا کماز کم ہفتے میں ایک بار تو آ سکتے ہیں۔


وہ خوش ہو کر بولی ہرے۔


ایک کپ علی کو دیتے ہوئے بہار نے کہا ویسے تو دونوں ٹیسٹی ہیں مگر ایک لے لیتی ہوں۔


رباب نے حیرت سے پوچھا یہ الگ الگ فلیور ہیں کیا مجھے بھی چکھنے دیں اور زبردستی اٹھ کر ان سے آگے ہو کر چکھ کر بولی واہ جی یہ بھی مزے کے ہیں۔


علی بولا ندیدی خود تو ہمیں آفر نہیں کی اور ہماری پر بھی نظر ہے۔ علی نے اس کا ایک کپ آدھا کھایا ہوا اپنے کپ سے بدل کر کہا لو اسے تم کھاو میں یہ کھاتا ہوں۔


رباب بولی پس گڈ۔


بہار یہ دیکھ کر پریشان اور حیران ہونے لگی کہ علی تو اسے دیوانوں کی طرح چاہتا ہے۔


علی بہار کے قریب کرسی کرتے ہوئے آہستہ سے بولا آنٹی جی میں دنیا گھوما ہوں مگر ایسی معصومیت کہیں نہیں دیکھی۔ کیا بنے گا اس کا نانا نے تو اس سے گھریلو زمہ دار عورت والی توقعات رکھنی ہیں اور یہ ایسا نہیں کر سکتی پلیز اس کی زندگی برباد نہ کریں۔


بہار پہلو بدل کر رہ گئی جواب نہ دیا۔


ویٹر بل لے کر آیا تو بہار نے علی سے کہا کہ بیٹا میں بل ادا کروں گی۔ اور پرس ہاتھ میں لے کر پرس کھولا تو علی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ماہیں بل دیں یہ بہت نامناسب بات ہے۔


بہار پھر اصرار کرنے لگی تو وہ منہ بنا کر بولا ٹھیک ہے آپ مجھے بیٹا نہیں سمجھتیں تو شوق سے ادا کریں۔


بہار نے پرس واپس رکھ دیا اور مسکرا کر شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ مسکرا دیا۔


بل جب علی نے دیا اوربقایا اسے ٹپ دی تو رباب جو آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی حیرت سے بولی چار آہیسکریموں کا اتنا زیادہ بل۔


رباب بولی علی آج تم صرف ہمیں چھوڑنے آے تھے اور ہم لوگوں نے تمھارا کتنا خرچہ کروا دیا اب آہندہ ہم اہیسکریم نہیں کھانے جاہیں گے۔


علی گاڑی ڈراہیو کرتے ہوئے بہار کے کان کے قریب سرگوشی میں بولا یہ دوسروں کا احساس کرنے والی بھی ہے حالانکہ اس کو آہیسکریم کتنی پسند ہے۔


بہار نے فخر سے کہا کہ وہ تو ہے میری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کچھ سوچتی ہوئی سنجیدہ سی چپ بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔


علی نے گھر ڈراپ کیا تو بہار نے اس کا شکریہ ادا کیا تو علی انہیں سمجھاتے ہوئے بولا آنٹی ماں بیٹے میں شکریہ نہیں ہوتا۔ اور مسکرا کر باے باے کرتا رباب کی طرف دیکھ کر باے کرتا چل پڑا رباب نے جواب میں کوئی رسپانس نہیں دیا۔


گھر آکر اس کے ساتھ لیٹتے ہوئے رباب بولی ماما ویسے آج بہت انجوائے کیا۔


مان نے اسے گھور کر دیکھا۔


رباب شرمندہ سی ہو کر بولی مجھے ارشاد کی بیٹی کا بہت دکھ ہوا میں تو آہیسکریم پارلر کی بات کر رہی تھی۔


بہار ہوؤں کر کے رہ گئی۔


رباب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ ماما یہ ارشاد کا سر کافی سفید لگ رہا تھا۔


بہار نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان میں شمیم آپا بتا رہی تھی کہ ان کے خاندان میں جلدی سر سفید ہو جاتے ہیں ارشاد کا میٹرک سے ہی سفید تھا عمر سے نہیں ہوا۔


رباب جواب میں چپ ہو کر رہ گئ اور اس کے ساتھ لپٹ کر سوتے ہوئے بولی مائی سویٹ ماما آئی لو یو۔


بہار نے بھی اسے پیار کرتے ہوئے دعا دی کہ خدا تمھاری قسمت اچھی کرے اور سدا خوش رہو۔


اگلے دن ہی علی گھر آ گیا حلیم لے کر کہ ماما نے بھجوائ ہے۔ ساتھ ہی رباب کی فرینڈز بھی آ گئیں۔ اور علی سے حلیم لے کر اس سے گلہ کرنے لگیں کہ ہمارا حصہ کدھر ہے۔


علی نے کہا ماما نے دیگ پکائی تھی ارشاد ماموں کی بچی کے ایصال ثواب کے لئے۔ میں ماما سے بولتا ہوں میری سالیوں کے لئے بھی رکھ دیں۔


ایک فرینڈ چڑ کر بولی تم سالیاں بول بول کر دل خوش کرتے رہنا کوشش نہ کرنا۔ نانا جی کو صاف بول دو کہ وہ ارشاد ماموں کے لئے کوئی اور دوشیزہ تلاش کر لیں میری محبت کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ تم بس نانا ہٹلر کو منا لو باقی رباب کو دو تھپڑ مار کر ماموں کا بھوت اتار دیں گے اور آنٹی جب بیٹی مانی تو وہ بھی مان جائیں گی۔ میں نے تو کچھ جوان غریب دوشیزائیں دیکھنی بھی شروع کر دی ہیں کچھ کو منانا بھی شروع کر دیا ہے۔


ایک بولی تم چھت پر چڑھ کر بولو میں یہاں سے چھلانگ لگانے والا ہوں اگر۔۔۔۔


علی جلدی سے بولا وہ پیچھے سے آ کر دھکا دے دیں گے کہ جاو جلدی کرو۔


ایک فرینڈ نے مشورہ دیا کہ تم انہیں اموشنل کیوں نہیں کرتے خود تو سب کو خوب کرتے ہیں۔


علی نے سرد آہ بھر کر بولا کہ ان کے سامنے ان کا لخت جگر اداس اداس پھرتا ہے سب کہتے ہیں کہ پہلی بار بھی اس کی جبری شادی کی گئی اور اس نے نبھائی۔ اب دوبارہ اس کے ساتھ جبر کرنا درست نہیں اب وہ جوان نہیں ہے اس کے دل کو اتنا پریشر دینا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر وہ تو رحم کی طرف آتے ہی نہیں نا۔ کہتے ہیں اس کی پہلی بیوی خوبصورت نہ تھی اب اسے خوبصورت جوان بیوی ملے گی تو دیکھتا ہوں کیسے خوش نہیں ہو گا جب گود میں میرا پوتا ہو گا تو دیکھنا مجھے دعائیں دے گا۔


ایک فرینڈ بولی میرے ماموں اور مامی میں بیس سال کا فرق تھا پھر بھی دونوں نے خوشی سے نباہ کیا کہ دونوں کی رضامندی تھی۔ بہت سے لوگ عمر کے فرق کے باوجود خوش رہتے ہیں مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے ایک تو ماموں کی مرضی نہیں ہے دوسرا ہماری دوست نازک مزاج اور سمپل ہے وہ اتنے بڑے گھر اور نانا کی زمہ داری نہیں اٹھا سکتی۔


ایک آہیڈیا ہم نانا ہٹلر کو جھوٹ بول دیتے ہیں کہ لڑکی اب نہیں مان رہی۔ پھر بےشک وہ کوئی اور جوان ڈھونڈ لیں ادھر ماموں کو یہ بھی گلٹی فیل ہوتی ہو گی نا کہ تم اسے پسند کرتے ہو اور وہ تمھارے حق میں ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ وہ یہ بھی تو بول سکتے ہیں نا کہ رباب کے علاوہ جس مرضی جوان لڑکی سے شادی کروا دیں چلو آج ہم چل کر زرا ان سے دو دو ہاتھ کرتے ہیں۔


رباب کی فرینڈز ارشاد کے گھر پہنچ گئ اور نانا جی کو بتانے لگیں کہ رباب کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں اس نے محض جزبات میں آ کر ہاں کی ہے ویسے بھی علی اسے پسند کرتا ہے بعد میں ملتے جلتے علی کو فیل ہو گا۔ آپ کسی اور سے ان کی شادی کروا دیں مگر رباب۔۔۔۔۔


نانا نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ویسے تو مجھے اپنے بچوں پر بھروسہ ہے علی پر بھی اور ارشاد پر بھی۔ اگر رشتے کی نوعیت بدل جائے تو وہ اتنے گھٹیا نہیں کہ رشتوں کا احترام نہ کریں۔ میں نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں جن میں بھائی کسی کو پسند کرتا تھا مگر اس کی شادی اس کے بھائی سے ہو گئ اور بھائی کو بھی علم تھا اور بیوی پر بھی بھروسہ اور بھائی پر بھی اور ایک ہی گھر میں اکھٹے رہتے بھی ہیں مگر بعد میں وہ اپنی بیوی کو ہی اہمیت دیتا ہے جس سے شادی ہو۔ اس لیے بعض اوقات یہ وقتی جزبات بھی ہو سکتے ہیں ورنہ آجکل کے دور میں لیلہ مجنوں تو ہر کوئی بنتا ہے مگر نبھاتا کوئی کوئی ہے۔ تم لوگ فکر نہ کرو رباب سے میں نے خود پوچھ کر یہ قدم اٹھایا ہے کوئی زبردستی نہیں کی ہے۔ اور یہ پھر قسمت کے کھیل بھی ہوتے ہیں۔ تم لوگ فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاءاللہ۔ اب جا کر شادی کی تیاریاں کرو۔ خوشی مناو۔ شاباش۔


رباب کی دوست مایوس ہو کر اٹھ گئیں۔


علی نے کہا میں نہ کہتا تھا کہ وہ کھبی نہیں مانیں گے۔


جاری ہے۔


پلیز اسے لاہک، شہیر اور کمنٹ کرنا نہ بھولیں۔شکریہ


ناول نگار عابدہ زی شیریں


Reader Comments

Be the first to leave a comment on this episode!


Log in to leave a comment.